سقوط ڈھاکہ … ہم نے کیا سیکھا
پاکستان 14اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح تھے چھ رکنی کابینہ تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے لگ بھگ ایک سال مملکت خداداد پاکستان کی خدمت کی اور 11 ستمبر 1948ء کو آپؒ جہاں فانی سے رخصت ہوئے۔ دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین بنے اس سے پہلے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ایک سازش کے ذریعے راولپنڈی کے کمپنی باغ میں شہید کر دیا گیا۔ ابتدائی مرحلے میں ہی ہمیں مشکلات سے دو چار کر دیا گیا رہی سہی کسر بھارت نے پوری کر دی جب ہمیں ہمارے حصے کے اثاثہ جات نہیں دئیے گئے حتی کہ خزانہ تک کو روک لیا گیا جس کے لیے مون داس گاندھی نے مرہن بھرت رکھا کہ مملکت پاکستان کو اس کا حصہ دیا جائے اور پھر انہیں بھی ایک جنونی ہندو نے ہلاک کردیا، ہمارے ابتدائی راہنما جنہوں نے انتھک کوششیں کیں ان میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح‘ خواجہ ناظم الدین‘ حسین شہید سروردی‘ خان عبدالقیوم خان‘ مولانا جوہر علی‘ اماں بی علاوہ ازیں مولانا ظفر علی خان اور میاں ممتاز دولتالہ‘ جناب حمید نظامی‘ قاضی غلام حسن‘ مولانا امانت علی‘ ماسٹر یونس ،کپتان شیخ برکت حسین گولڈ میڈلسٹ جن کا تعلق گوجرخان نے تھا انہوں نے انتھک کوششیں کیں۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مشکلات کے باوجود ہم مقروض نہیں تھے حکومتیں چلتی رہیں یہاں تک کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی نے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور یہی قبضہ مشکلات کا سبب بنا۔ 1971ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اکثریت میں رہی مگر اس وقت کے صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان مشکلات پر قابو نہ پاسکے اور ایک بین الاقوامی اور علاقائی سازش کے تحت پاکستان کو تقسیم کر دیا گیا اور ہم دنیا میں نمایاں پوزیشن چھوڑ کر گیارہویں پوزیشن پر آگئے۔ دکھ کی بات ہے ہمارے راہنماؤں کی روحیں کیا تڑپی نہ ہوں گی جب سروردی گراونڈ ڈھاکہ میں جنرل نیازی نے جنرل روڑا کو اپنا نہ صرف پسٹل پیش کیا بلکہ اپنے سرنڈر ہونے کی دستاویزات پر دستخط کیے اور پاکستانی فوج کے ایک دستہ نے انڈین جنرل کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ ایک سروے کے مطابق بھارت نے برسوں سے مشرقی پاکستان میں سازشوں کا جال پھیلا رکھا تھا جس کا ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا جب جنرل نیازی سے ہتھیار ڈالنے کے متعلق سوالات کیے گئے تو جنرل صاحب نے کہا کہ مغربی پاکستان سے مجھے تازہ کمق نہیں پہنچائی گئی مجھے کم ازکم نوڈویژن فوج کی ضرورت تھی جبکہ میرے پاس صرف پانچ ڈویژن بٹالین تھیں آگے کے حالات سے قوم باخبر ہے … اگر سول اور ملٹری بیوروکریسی اپنے دل ودماغ کا آدھا حصہ بھی استعمال کرتی تو نہ پاکستان تقسیم ہوتا نہ قتل وغارت کی یہ نوبت آتی۔ 16 دسمبر 1971ء کے سانحہ کی تحقیقات کے لیے مرکزی حکومت میں درجنوں کمیشن کو بٹھایا اور آخری بڑا کمیشن جناب جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں بنا جس کی رپورٹ آج تک نہ مل سکی اگرچہ اس کے چیدہ چیدہ حصے اندرون ملک اور بیرون ملک میڈیا میں آتے رہے مگر ایک حیران کن چیز جو نوٹ کرنے کی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کو نقصان پہنچانے والے تینوں کردار اپنے اپنے انجام کو پہنچے۔ اندرا گاندھی اپنے ہی گارڈ کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں اور ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے اور پاکستان سے الگ ہونے والے شیخ مجیب الرحمان کو اپنے ہی فوج کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا جس میں ان کے خاندان کے 35 افراد کو ہلاک کیا گیا، حسینہ واجد شیخ اس لیے بچ گئی کہ وہ بیرونی دورے پر تھیں۔ اندرا گاندھی نے اپنی زندگی بی بی سی کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کو تقسیم کرکے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہم نے 1971ء کے سانحہ سے کیا سیکھا ؟ آج سیاست دان اور ملٹری سول بیوروکریسی ملک کو کہاں لے جارہی ہے ہم ایک کھربوں ڈالر کے مقروض ہیں اور آدھی نوجوان آبادی بیروزگار ہے۔ آخر ہماری حالت کب بدلے گی۔