مادری زبان اظہار خیال
مادری زبان میں اظہار خیال کے تحت ایک ماہر تعلیم فاضل شخصیت نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے انگریزی فرانسیسی اور جرمن زبانوں کی ضرورت ہے انہوں نے مثال کے طور پر ہندوستان‘ پاکستان‘ الجزائر اور مراکش کا ذکر کیا ہے۔ ان کے یہ مثالی تھا سب تقریباً ایک سو سال تک انگریزوں یا فرانسیسوں کے غلام رہے ہیں جہاں پر قبضہ جمانے کے بعد ان حاکموں نے اپنے اپنے ملک کی زبان اور تہذیب وتمدن ٹھونس دیا تھا۔ اگربرطانیہ اور فرانس ایک سو سال تک روس کی غلامی میں رہے چکے ہوتے تو آزادی کے بعد آج بھی وہاں اعلی تعلیم کے لیے روسی زبان ہی متعبر سمجھی جاتی۔ اگر ہندوستان اور پاکستان سو سال تک برطانیہ کی بجائے جاپان کے غلام رہ چکے ہوتے تو آج بھی یہاں آزادی کے بعد جاپانی زبان ہی کو ضروری سمجھا جاتا۔ فاضل مضمون نگار کی توجہ اس طرف کیوں نہیں جاتی کہ روس‘ چین‘ جاپان‘ اٹلی ‘ جرمن اور سویڈن وغیرہ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال اپنی اپنی قومی زبان کے ذریعے ہی حاصل کیا ہے اس برصغیر پر قبضہ جماکر انگریزوں نے اپنی زبان کو لازمی قرار دے دیا۔ جگہ جگہ مشینری سکول کھولے گئے اور انگریز نسل پرست مفکر لارڈمیکالے کی تجاویز کے مطابق لوگوں کے ذہن میں نفسیاتی طور پر یہ بیٹھا دیا گیا کہ انگریزی زبان لباس اور تہذیب وتمدن سب افضل ہیں اور مقامی ہرچیز گھٹیا اور جاہلانہ دور کی یادگاریں ہیں۔ ہر جارح ملک اپنے مفتومہ علاقوں پر اسی قسم کا پلان اختیار کرتا ہے۔ انگریزوں کے دور غلامی کے نوے سال اور آزادی کے ستر سال بعد بھی انگریزی زبان کا تسلط اس ملک میں قائم ودائم ہے۔ بھلا بتائیے تو کہ اتنے لمبے عرصے میں پاکستان نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کیا ترقی کی ہے؟ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ غیر ملکی زبان کے ذریعے تو کوئی ملک ایک ہزار سال تک بھی کبھی حقیقی ترقی نہیں کرسکتا اس ملک میں کبھی اسلام کے نام پر کبھی غریبوں کے لیے اور کبھی جمہوریت کی خاطر اور اب تبدیلی کے نام پر حکومت قائم ہوئی ہے مگر افسوس کہ ہر دور کے سربراہ مملکت انگریزی زبان ہی کی برتری کے قائل رہتے چلے آرہے ہیں دور غلامی میں ہمیں پانچویں جماعت سے انگریزی زبان پڑھانی شروع کی جاتی تھی مگر آج اس ملک میں پہلی جماعت ہی سے نہ صرف انگریزی زبان پڑھائی جاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ پتلون اور ٹائی باندھنا بھی لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس چھوٹی عمر کے بچوں کو انگریزی لباس پہنے اور کھانا کھانے اور سونے سے پہلے انگریزی زبان میں دعا پڑھتے دیکھ کر ماں باپ خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ ذہنی غلامی میں مبتلا لوگ اس طرز کو بڑی شاندار طریقہ کی ابتدا سمجھ رہے ہیں مگر افسوس یہ تو انتہائی تنزل کی نشانی ہے بھلا اس طور طریقے پر پاکستان میں اسلامی طرز پر ریاست قائم کی جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں شاعر مشرق تو بہت پہلے کہہ گئے ہیں
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا……کہاں سے آئے صدا لاالہ اللہ
(لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ حامد محمود ، راوپنڈی)