گلگت بلتستان نیا صوبہ بنے گا یا نہیں، اس حوالے سے آج کل پھر نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے، اس حوالے سے اگر ہم تاریخ میں جھانکیں تو 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجا نے ان علاقوں پر بزور قبضہ کر لیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ کشمیر کے زیرِ نگیں تھا۔اُس وقت یہ علاقہ چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا۔ نگر، ہنزہ، کھرمنگ، خپلو، شگر، دیامر، خذر، سکردو، استوار اور گانچھے راجواڑے تھے۔ مہاراجہ کشمیر کی ایماء پر جنرل زور آور سنگھ نے یہ علاقہ فتح کر کے کشمیر میں شامل کیا۔ ہندوستان میں برطانوی دور حکومت میں روس نے سنٹرل ایشیاء کی ریاستوں کو فتح کرنے کے بعد اس علاقہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو 1935ء میں مہاراجہ کشمیر نے یہ علاقہ حکومت برطانیہ کو لیز پردے دیا۔ کرنل ڈیورنڈ کو اس علاقے کا پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ 1947ء میں جب ہندوستان انگریز کی غلامی سے آزاد ہوا تو یہ علاقہ مہاراجہ کشمیر کے زیر قبضہ نہ تھا بلکہ انگریزوں کے زیر قبضہ تھا۔ 14اگست 1947ء یوم آزادی تھا۔ اس دن گلگت بلتستان میں مہاراجہ کشمیر کی حکمرانی نہ تھی۔ گلگت سے 40 میل دور جنوب کی جانب بونجی کے مقام پر مہاراجہ کشمیر کی جموں اینڈ کشمیر بٹالین نمبر6 تعینات تھی مہاراجہ نے موقع اور حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے انگریزوں سے کئے گئے معاہدے کو پس پشت ڈال کر بریگیڈئر گنسارا سنگھ کو اس علاقے کا گورنر مقرر کردیا جو فوج کی مدد سے علاقہ میں داخل ہو گیا اور گلگت پر قابض ہو گیا۔ برطانوی وائسرائے کمشنڈ آفیسرز اور بونجی بٹالین کے مسلمان افسران نے گنسارا سنگھ کو شکست دی اور اسے گرفتارکر لیا۔ کرنل حسن اور علاقہ کے مسلمان مجاہدین نے 16 دن تک اس آزاد کردہ علاقہ پر حکومت کی۔ وہ کمانڈر انچیف بنے۔ یکم نومبر 1947ء کو گلگت اسکائوٹس کے کمانڈر میجر برائون نے مقامی مسلم باغیوں کیساتھ مل کر ڈوگرہ فوج کو شکست دی۔ راجہ شاہ رئیس خان صدر مقرر ہوئے۔ 16 دن بطور آزاد ریاست رہنے کے بعد 16 نومبر 1947ء کو حکومت گلگت و بلتستان نے الحاق پاکستان کا اعلان کیا۔ قانونی حیثیت تو یہ ہونا چاہئے تھی کہ گلگت بلتستان آزادی کے وقت مہاراجہ کشمیر کے زیر نگین نہ تھا بلکہ اس علاقہ پر عمل داری حکومت برطانیہ کی تھی۔ مہاراجہ کشمیر نے بزور شمشیر یہ علاقے فتح کئے تھے اور مجاہدین نے بزور شمشیر مہاراجہ کشمیر کے گورنر بریگیڈئر گنسارا سنگھ کی فوج کو شکست دی۔ اسے گرفتار کرلیا اور ڈوگرہ راجہ سے اپنے مفتوحہ علاقہ آزاد کروا لیا۔ لہٰذا یہ کشمیر کا حصہ نہ رہے۔ آزادکشمیر بھی مجاہدین نے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے تسلط سے جہاد کر کے آزاد کروایا تھا۔ آزادکشمیر 1947ء میں مہاراجہ کشمیر کے زیر نگین تھا لہذا وہ متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا لیکن گلگت بلتستان کا مسئلہ بالکل جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بوقت آزادی ہند مہاراجہ کشمیر کے زیر نگیں نہیں تھا لہٰذا یہ متنازعہ علاقہ نہیں ہے۔ اسے بوقت الحاق پاکستان میں پانچواں صوبہ بنا دینا چاہئے تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ 1954ء تک اس علاقہ کے لوگ اپنا ڈومیسائل مظفر آباد آزادکشمیر سے حاصل کرتے تھے۔ 1937ء اور 1941ء کے ریاستی انتخابات میں گلگت بلتستان سے 5 نمائندے کشمیر اسمبلی میں منتخب ہو کر جاتے تھے اور 1947ء تک کشمیر اسمبلی میں اس علاقہ کی نمائندگی تھی لہٰذا تاریخی طورپر اس علاقہ کے مفتوحہ علاقہ ہونے کی بدولت یہ کشمیر کا حصہ قرار پایا لیکن حکومت برطانیہ کی عمل داری کے وقت 1947ء کو آزاد ہوا تو مہاراجہ کشمیر کے زیر تسلط نہ تھا لہٰذا یہ کشمیر کا حصہ نہیں بنتا۔ پاکستان نے قانونی غلطی یہ کی کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھارت کے زور پراسے کشمیرکا حصہ تسلیم کیا اور اب اگر اسے پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایا گیا تو یہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی جس سے پاکستان کا کشمیر پر موقف کمزورہو جائیگا اور بھارت بھی ردعمل میں اسے جواز بنا کر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کر لے گا۔ اس طرح ’’تقسیم کشمیر‘‘ کی راہ ہموار ہو جائیگی۔2009ء میں اس علاقے کو آزاد حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں انتخابات کروائے گئے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔2014ء میں پاک چین اقتصادی راہداری کیلئے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے پر اس تحریک کی حمایت اور مخالفت میں بیانات اور آراء کا سلسلہ جاری ہوا۔ ستمبر 2009ء میں ہی چین نے پنجی استور کے مقام پر ایک میگا انرجی پروجیکٹ لگایا جس پر بھارت نے واویلا مچایا۔ پاکستان نے بھارت کے احتجاج کو مسترد کر دیا۔ اب بھی پاک چین اقتصادی راہداری بھارت کو کھٹکتی ہے اور واویلا کر رہا ہے بھارتی احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے چین کی تسلی کیلئے بحیثیت مبصر پاکستانی سینٹ اور قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کیلئے چند سیٹیں مختص کرکے سابقہ حکومت نے عارضی حل تو نکال لیا مگر مستقل حل کی جانب توجہ نہ دی۔
اسی مسئلے پر گزشتہ ہفتے چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہناہے کہ جو اختیارات باقی صوبوں کو حاصل ہیں وہی گلگت بلتستان کو حاصل ہوں گے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 7رکنی لارجر بینچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے گلگت بلتستان سے متعلق عبوری مجوزہ مسودہ عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ مسودہ مکمل کرنے کے لیے وقت چاہیے، قانون سازی اور انتظامیہ کے تمام اختیارات دے رہے ہیں، ہم نے اس مسودہ میں آئین پاکستان پر عمل کی کوشش کی ہے، گلگت بلتستان کو الگ صوبہ نہیں بنا سکتے لیکن تمام صوبائی اختیارات دیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ گلگت بلتستان سے متعلق یہ بہت قابل تحسین بات ہے، گلگت بلتستان والوں کا کہنا ہے کہ انہیں اختیارات نہیں دیے جارہے۔اس موقع پر ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے عدالت کو بتایا کہ یہ مسودہ ابھی ہمارے سامنے نہیں آیا، ہمیں اجازت دیں کہ اپنی سفارشات بھی دیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ گلگت بلتستان والوں کے تمام مطالبات منظور کرلیں۔اہم بات یہ ہے کہ عدالت نے اُسی وقت اٹارنی جنرل آفس میں اس حوالے سے ایک اجلاس بلانے کی ہدایت کی اور مسودہ قانون کو حتمی شکل دینے کے لیے کمیٹی بنادی جس کے سربراہ بھی اٹارنی جنرل ہوں گے جب کہ اعتزاز احسن، سلمان اکرم راجا، چوہدری افرا سیاب ایڈووکیٹ، وزیر قانون گلگت بلتستان اور سیکریٹری امورِ کشمیر کمیٹی کے ممبر ہوں گے۔
کہنا تو شاید نہیں چاہیے لیکن ہمارے سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر بن گیا ہے، گلگت بلتستان کی عوام کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ ان کا معاملہ اور کیس کہاں پھنس گیا ہے، حقوق کی جدوجہد کرنی ہے تو کس سے کرنی ہے اور حقوق میں رکاوٹ ہوسکتا ہے تو کون ہوسکتا ہے بلکہ حقوق ہیں کیا؟ گزشتہ کئی سالوں سے اس بات کو آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ میڈیا سمیت ہر مقام اسی سوچ کو ہی جگہ ملتی رہی ہے جو پاکستان کا آئینی صوبہ ہونے کا دعویدار ہے، گلگت بلتستان کا ایک بڑا طبقہ وحدت کشمیر کا مطالبہ کرتا ہے، اور ایک بڑا طبقہ قوم پرستانہ ذہنیت رکھتا ہے، جو کہ ریاستی سوچ کے حامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کا متفقہ بیانیہ ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے، گلگت بلتستان میں ابھی تک ماضی میں گھرا ہوا ہے کہ ہمارے اسلاف نے ڈنڈوں سے ڈوگرہ کو بھگادیا لیکن ڈوگرہ سے آزادی لینے کے بعد پے درپے جو معاہدے ہوئے ہیں وہاں پر اسلاف غافل نظر آئے، یہ بھی ایک مصدقہ اور مستند اصول ہے کہ جس قوم پر ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے آفت آجائیں وہاں پر اپنے اسلاف کی مبالغہ آرائی شروع ہوجاتی ہے، گلگت بلتستان بھی ایسی صورتحال سے دوچار ہے۔
لہٰذاہونا یہ چاہیے کہ گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے تعین اور آئینی حقوق کی فراہمی سمیت روشن مستقبل کے لئے غیر سیاسی بنیادوں پر کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ مسئلے کا حل تلاش کیا جائے کہ کس کے مطالبے میں کتنا وزن ہے اور کس کا مطالبہ کس بنیاد پر ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ یہاں پر آئینی حقوق کے حوالے سے ماضی میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر مطالبوں کو پروان چڑھایا گیا ہے اور اب بھی ان مطالبات سے ایک قدم پیچھے ہٹنا مذہبی تشخص پر حملہ قرار دیتے ہوئے مزاحمت کی جاتی ہے، گلگت بلتستان کو اگر کسی چیز نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے تو وہ فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ سوچ ہے۔فرقہ واریت نے جہاں سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو اجل کی راہ دکھائی ہے جن میں متعدد ایسے افراد تھے جن کی خدمات ناقابل فراموش ہے وہی پر فرقہ وارانہ سوچ نے یہاں کے مستقبل کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ اس سے بڑا ظلم کسی شخص یا علاقے کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے کہ اس کے مستقبل کا فیصلہ فرقہ وارانہ سوچ کی بنیاد پر کیا جائے جہاں پر دلیل یا اہمیت کوئی معنی نہیں رکھتے ہوں، ایسی صورتحال میں یقینا لوگوں کے جذبات مجروح ہوں گے اوریہ ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024