صدر مملکت‘ وزیراعظم اور چیئرمین نیب کا کرپشن کے مکمل خاتمہ کا عزم اور سرمایہ کاری کے خوشگوار ماحول کے تقاضے
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں کرپشن کا مکمل خاتمہ کرکے رہیں گے‘ ہمارے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں‘ صرف سرمایہ کار دوست ماحول کی ضرورت ہے۔ حکومت ایک مختلف سوچ لے کر آئی ہے‘ پاکستان میں سرمایہ کاری کا بہت پوٹینشل ہے۔ بیرون ممالک کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگا رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز کراچی میں سٹاک ایکسچینج کے عہدیداروں اور سٹاک بروکرز کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ وفد نے وزیراعظم کو سٹاک بروکرز اور مارکیٹ سے متعلق امور سے آگاہ کیا اور مالی استحکام کیلئے تجاویز پیش کیں۔ وفد کی جانب سے حکومت کی مالیاتی پالیسی کی مکمل حمایت کی بھی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس ملاقات میں ٹیکس بیس بڑھانے‘ سٹاک مارکیٹ میں آئی ٹی کے استعمال اور غیرقانونی ادائیگیوں کی روک تھام پر بھی اتفاق کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے وفد کی جانب سے پیش کی گئی بیشتر تجاویز منظور کرلیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کاروبار اور سرمایہ کاری کو فروغ اور تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ کے استحکام کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے وسیع مواقع موجود ہیں۔ قبل ازیں وزیراعظم سے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ملاقات کی جس میں سیاسی اور ترقیاتی معاملات سمیت باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر گورنر سندھ نے کراچی میں انسداد تجاوزات اپریشن کے حوالے سے بریفنگ دی اور وزیراعظم کو تاجروں کے مسائل‘ عوام کے تحفظات اور گلستان جوہر دھماکے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو ہر صورت بے نقاب کیا جائیگا۔ حکومت کراچی سمیت صوبے کی ترقی کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ کرپشن کا مکمل خاتمہ کرکے رہیں گے۔
یہ امر واقع ہے کہ ایک کلچر کے طور پر پروان چڑھنے اور پھیلنے والا کرپشن کا ناسور ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس نے میرٹ کا گلہ دبایا اور بے لاگ انصاف کی عملداری کا تصور پنپنے نہیں دیا۔ کرپشن کا ناسور ملک خداداد میں قیام پاکستان کے وقت ہی در آیا تھا جب ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنیوالے اس ملک خداداد کے شہریوں نے جعلی کلیم داخل کراکے متروکہ وقف املاک میں بڑی بڑی جائیدادیں اپنے نام الاٹ کراکے یہاں کرپشن کی بنیاد رکھی اور ان جائیدادوں کو ’’ہذا من فضلِ رّبی‘‘ کا کور دے دیا۔ پھر اس ملک کی دھرتی پر بوئے گئے کرپشن کے بیج کی جڑیں پھیلنا اور مضبوط ہونا شروع ہوئیں تو حکومتی ریاستی اداروں میں یہ کرپشن سرائیت کرگئی اور پھر کرپشن کیخلاف دادرسی کرنیوالے نظام عدل میں بھی کرپشن کی بہار آگئی۔ اس طرح کرپٹ عناصر کے وارے نیارے ہونے لگے اور بے وسیلہ عوام لٹ پٹ کر راندۂ درگاہ ہوگئے۔ کرپشن کیخلاف کسی قسم کی دادرسی نہ ہونے کے باعث ہمارے سیاست دانوں‘ بیوروکریٹس اور اختیارات والے مناصب پر فائز دیگر مکاتب زندگی کے لوگوں نے بھی پورے دھڑلے کے ساتھ کرپشن کے تالاب میں ڈبکیاں لگانا شروع کر دیں چنانچہ ہمارے معاشرے میں یہ تصور راسخ ہوگیا کہ یہاں ’’پہیہ‘‘ لگائے بغیر متعلقہ محکموں اور شخصیات سے کسی جائز کام کی منظوری لینا بھی ناممکنات میں شامل ہے۔ اس طرح میرٹ کا جنازہ نکلنے لگا اور پیسے کے زور پر ملازمتوں اور سیاست میں آنیوالے غیرمستحق اور نااہل افراد نے پورا سسٹم گدلا کردیا۔ اگرچہ ہر دور حکومت میں محکمہ اینٹی کرپشن کے ذریعے ادارہ جاتی کرپشن کے تدارک کیلئے اقدامات اٹھانے کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں مگر فی الحقیقت یہاں کرپشن پھلتی پھولتی رہی ہے جس کی مناسبت سے محکمہ اینٹی کرپشن کا نام ’’آنٹی کرپشن‘‘ پڑ گیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) اور سابق ادوار حکومت میں احتساب بیورو اور احتساب کمیشن تشکیل دیئے گئے مگر ان اداروں کو محض حکومت مخالفین کیخلاف انتقامی سیاسی کارروائیوں کیلئے بروئے کار لایا جاتا رہا جبکہ ایوان اقتدار میں موجود لوگوں کو گرفت میں لینے کیلئے احتساب کے ان اداروں کے پر جلتے نظر آئے۔ جرنیلی آمر مشرف نے احتساب کمیشن کو نیب (نیشنل اکائونٹبلٹی بیورو) کے قالب میں ڈھال دیا مگر یہ ادارہ بھی زیادہ تر سیاسی انتقامی کارروائیوں کیلئے ہی بروئے کار لایا جانے لگا جس کے چیئرمین کے تقرر کا اختیار مشرف کے بعد صرف وزیراعظم کے پاس تھا اس لئے نیب کی جانب سے کسی حکومتی شخصیت کیخلاف نیب کا کوئی کیس درج ہونے کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسی تناظر میں پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں 18ویں آئینی ترمیم میں چیئرمین نیب کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا اور اس میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے چیئرمین نیب کے تقرر کی شق شامل کی گئی۔ اس آئینی شق کے تحت اب تک دو چیئرمین نیب قمرالزمان اور جسٹس (ر) جاوید اقبال حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے مقرر ہوئے ہیں۔
عمران خان کو بطور قومی کرکٹر بھی کرپشن کلچر سے سب سے زیادہ اذیت ہوتی تھی اور یہ بات انکے ذہن میں راسخ ہوچکی تھی کہ بے انصافیوں نے ہی اس معاشرے کا توازن خراب کیا ہے جبکہ کرپشن بے انصافیوں کی بنیاد ہے۔ چنانچہ انہوں نے معاشرے میں بے انصافیوں کے قلع قمع کے جذبے کے ساتھ میدان سیاست میں قدم رکھا اور یہ عزم باندھ لیا کہ انہوں نے ملک کے بے وسیلہ عام طبقات کو بے انصافیوں اور کرپشن کلچر سے نجات دلانے کیلئے اقتدار کی منزل حاصل کرنی ہے۔ سیاست میں ان کیلئے کرپشن کلچر میں داخل ہوکر اقتدار تک پہنچنے کے راستے کھلے تھے مگر وہ چونکہ ملک اور عوام کو کرپشن کلچر سے نجات دلانے کے جذبہ کے ساتھ سیاست میں آئے تھے اس لئے انہوں نے اقتدار کے سفر کی کٹھنائیاں قبول کرلیں مگر اپنے اصولوں پر ہرگز سمجھوتہ نہ کیا۔ انہوں نے کرپشن کلچر اور بے ا نصافیوں کا تدارک اپنے پارٹی منشور کا بھی حصہ بنایا اور اس کیلئے آواز اٹھانا شروع کی چنانچہ عوام میں انکی اس آواز کو پذیرائی ملنا شروع ہوگئی اور بالآخر جولائی 2018ء کے انتخابات میں عوام نے انہیں وفاق اور صوبوں میں حکمرانی کا مینڈیٹ دے دیا جس کے تحت وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے اپنے اقتدار کے پہلے سو دن کی ترجیحات میں بھی احتساب کو بنیاد بنایا۔
بے شک نیب آج ایک آزاد اور خودمختار ادارے کی حیثیت سے کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کررہا ہے اور گزشتہ روز چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ کل جن کے پاس بائیک تھی‘ آج انکے پاس دبئی میں بڑے بڑے ٹاور ہیں۔ کیا اسکے بارے میں پوچھنا گناہ ہے۔ انکے بقول مشرقی پاکستان استحصال سے نہیں‘ بدعنوانی کے باعث ہم سے الگ ہوا تھا جبکہ کرپشن آج بھی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی طرح صدر مملکت عارف علوی نے بھی اس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے یہی باور کرایا کہ پاکستانیوں کے اربوں ڈالر سوئس بنکوں میں ہیں‘ ہمیں بدعنوان عناصر سے اثاثوں کا بہرصورت پوچھنا ہوگا۔
کرپشن فری سوسائٹی کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے یقیناً بے رحم احتساب ہی وقت کی ضرورت ہے جس کیلئے صدر مملکت اور وزیراعظم کے علاوہ خود چیئرمین نیب بھی پرعزم ہیں اور احتساب ایکٹ کے تحت قائم مقدمات کی فائلیں سرعت کے ساتھ کھولی اور فیصلہ کن مراحل میں داخل کی جارہی ہیں جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار بھی احتساب کے مقدمات کی کارروائی ترجیحی بنیادوں پر چلانے کے متقاضی ہیں جس سے عوام میں بجا طور پر یہ توقع پیدا ہورہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے عہد اقتدار میں کرپشن فری معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندۂ تعبیر کرکے چھوڑیں گے۔
یقیناً کرپشن کا تدارک ہی نہیں‘ انصاف کی عملداری بھی قوم کا مطمحٔ نظر ہے جبکہ انصاف کی عملداری احتساب کے عمل میں مکمل شفافیت کی متقاضی ہے۔ اگر نیب کے ادارے کی جانب سے کسی کیخلاف جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی اسے مجرم گردانا جائیگا اور اس کا میڈیا ٹرائل کرتے ہوئے اسکے ساتھ مجرموں والا ہی سلوک کیا جائیگا تو اس سے کرپشن کے تدارک کی صورت میں حاصل ہونیوالے اصل مقاصد سے زیادہ معاشرے میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہوگی۔ اس تناظر میں اگر نیب کی جانب سے سیاست دانوں‘ بیوروکریٹس اور تاجر برادری سمیت مختلف مکاتب زندگی میں کی گئی بے دریغ پکڑ دھکڑ اور انکے میڈیا ٹرائل سے پیدا ہونیوالی خوف و ہراس کی صورتحال کے ملک میں سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں تو اس ماحول میں بیرونی سرمایہ کاروں تو کجا ملک کے اپنے سرمایہ کاروں سے بھی ملک میں سرمایہ کاری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ اکثر سرمایہ کاروں اور تاجروں نے سرمایہ کاری اور تجارت کیلئے ماحول کو اپنے لئے غیرمحفوظ سمجھتے ہوئے سرمایہ کاری روک دی اور کاروبار ٹھپ کردیئے اور پھر سرمایہ کاروں میں ملک سے باہر جا کر پیسہ لگانے کا رجحان تیزی سے نشوونما پانے لگا۔ آج ملک میں تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں‘ کساد بازاری کا دور دورہ ہے اور سٹاک مارکیٹ آئے روز کریش ہو رہی ہے تو اسکی بنیاد وہی غیرمحفوظ ماحول ہے جو نیب کی جانب سے بے دریغ پکڑ دھکڑ اور کرپشن کے الزام میں پکڑے جانیوالے افراد کے میڈیا ٹرائل کے باعث پیدا ہوا ہے اس لئے یہ خدشہ موجود ہے کہ کرپشن فری معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندۂ تعبیر کرتے ہوئے کہیں قومی معیشت کو ہی تباہی کے دہانے پر نہ پہنچا دیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے اگرچہ کراچی میں تاجروں اور سٹاک بروکروں سے بات چیت کے دوران انہیں سرمایہ کار دوست ماحول فراہم کرنے کا یقین دلایا ہے جس کیلئے حکومت اقدامات اٹھا بھی رہی ہے تاہم جب تک ملک میں نیب کے پیدا کردہ عدم تحفظ کے ماحول کو کرپشن کے تدارک کے بااعتماد ماحول میں تبدیل نہیں کیا جائیگا‘ اس وقت تک سرمایہ کاروں اور تاجروں کے تحفظات دور نہیں ہو سکیں گے۔ چنانچہ اس صورتحال میں قومی معیشت کی ترقی بھی ایک خواب بن کر رہ جائیگی۔ وزیراعظم عمران خان کو اس معاملہ میں بہرصوت ایسے عملی اقدامات اٹھانا ہونگے کہ کرپشن کے عمل میں انصاف کی عملداری غالب نظر آئے۔ اس سے ہی کرپشن فری معاشرے کی بنیاد مستحکم ہوپائے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024