چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کوئٹہ میں اپنے اعزاز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انسانی بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے تو عوام کے اندر بے چینی اور ہیجانی کیفیت پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ ریاست حکومت کے ذریعے چلتی ہے۔ کئی حکومتی ذمہ دار کرپشن میں ملوث رہے۔ بعض کے اثاثوں کی تعداد بے شمار اور مالیت اربوں ڈالر تک پہنچ گئی۔ اثاثے بنانا جرم نہیں مگر کرپشن کے ذریعے کاروبار کو بڑھانا اور جائیدادیں بنانا جرم ہی نہیں ظلم بھی ہے۔ اصل میں یہی مافیا پاکستان میں غربت اور غریبوں کی محرومیوں کا ذمہ دار ہے۔ بنیادی سہولتوں کے حوالے سے ریاست جب اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو لوگ عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں۔ اس پر عدلیہ کو نوٹس لینا پڑتا ہے اور اسی تناظر میں عدلیہ پر زیرالتواء مقدمات کا بوجھ بھی بڑھتا رہتا ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ریاستی ادارے عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے اپنے آئینی فرائض کماحقہ ادا کرتے رہیں تو عدالتوں کو ان معاملات کا نوٹس لینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ آئین کے آرٹیکل 199 اور 184 کے تحت عدلیہ کی بہرصورت یہ ذمہ داری ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے جس کے مختلف طریقہ کار ہیں اس میں سوموٹو ایکشن کی گنجائش بھی موجود ہے۔ آئین کی اس شق پر اس طبقے کو اطمینان ہے جس کے تحت عدلیہ بنیادی عوامی حقوق کو یقینی بنا رہی ہے ورنہ تو ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا۔ موجودہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے کی طرف خصوصی توجہ دے رہی ہے، ریاست مدینہ کی تشکیل کیلئے پرعزم ہے، ریاست مدینہ میں بنیادی انسانی حقوق کا زیادہ تحفظ موجود ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024