تمام جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بنائی جائے۔ رانا ثناء
پنجاب کے سابق وزیر قانون کو شاید اقتدار سے باہر ہونے کے بعد کچھ زیادہ ہی قوم کا درد ستانے لگا ہے۔ اسی لئے تو انہوں نے ایسی تجویز پیش کی ہے۔ جب محترم خود حکومت کا حصہ تھے اور تو اس وقت برے حالات میں پھنسنے کے باوجود انہوں نے کوئی ایسا بے مثال لاجواب نسخہ تجویز کیوں نہیں کیا۔ اگر اس وقت کوئی ایسا نادر نسخہ وہ فروخت کے لئے پیش کرتے تو انہیں شاید جان کی امان بھی نہ ملتی۔ ویسے بھی کہتے ہیں دوسروں کو نصیحت کرنا آسان اپنی اصلاح کرنا بہت مشکل ہے۔ اس وقت تو موجودہ حکومت کوچاروں طرف سے ٹھنڈی ہوائیں آ رہی ہیں تو وہ ایسا فیصلہ کیوں کرے۔ اس وقت بقول حکومت تمام ادارے ایک پیج پر ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہیں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس لئے رانا جی اپنا مشورہ اپنے پاس ہی رکھیں۔
حکومت کی اہلیت و نااہلی کا فیصلہ اب رانا جی نے تو کرنا نہیں تاہم وہ جو جی چاہے بولیں مگر جو لوگ موجودہ حکومت کو ووٹ دے کر اقتدار میں لائے ہیں‘جب تک وہ اکتا نہیں جاتے یا باقی ادارے موجود سیٹ اپ سے پریشان نہیں ہوتے اس وقت تو رانا جی کو رانجھے کی طرح تنہا ویران گلیوں میں پھرنے کی عادت پختہ کرنی ہو گی ، ورنہ وقت گزارنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ فی الحال ہیر آموں کے باغوں میں درختوں کے گھنے سائے تلے پلنگ بچھا کر آرام کر رہی ہے۔ اسے کوئی ڈسٹرب کرنے کے موڈ میں نہیں ہے تو بھلا ان حالات میں رانا جی کا قومی حکومت والا چورن کون خریدے گا۔ سوائے ان کے حامی اور موالیوں کے۔
٭٭٭٭
تہذیب کے دائرے میں رہ کر پاکستانی ثقافت کو اجاگر کریں۔ فیاض چوہان
وزیر اطلاعات نے یہ مشورہ ان لوگوں کو دیا ہے جو ثقافت کے نام پر وہ کچھ کر رہے ہیں جو ثقافت ہے ہی نہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ 30 برسوں سے پاکستان میں پنجابی اور پشتو فلموں میں ثقافت کے نام پرجو کچھ دکھایا جا رہا ہے‘ عوام کے دماغ اور مزاج کو خراب کیاجا رہا ہے۔۔ اس کے بعد سٹیج ڈراموں کادور بھی ہمارے سامنے ہے۔ سٹیج پر ثقافت کے نام پر جو ہو رہا ہے اس کے بعد تو لوگوں نے ثقافت کا نام لینا ہی چھوڑدیا ہے۔ رہی بات تہذیب کی تو وہ ماضی کی فلم ’’تہذیب‘‘ کے بعد ہی کہیں دفن ہو چکی ہے۔ اس کے دائرے میں پشتو اور پنجابی فلموں میں کام کرنے اور سٹیج پر ڈرامہ کرنے والی نت نئی اداکارائیں آ ہی نہیں سکتیں۔ جن کو اداکارہ کہتے ہوئے شرم آتی ہو ، ان کو فنکارہ کہتے ہوئے فن کی توہین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہ تو سٹیج اور فلم کی کہانی ہے مگر اب انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ تمام ٹی وی چینلز پر جو کچھ گھر گھر دکھایا جا رہا ہے کیا وہ تہذیب اور ثقافت کہلا سکتا ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات کو فلم سٹیج اور ٹی وی کی اگر اصلاح کرنی ہے تو پھر ان اداکاروں اور اداکارائوں کو نئے سرے سے پی ٹی وی کی پہلی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے تہذیب اور ثقافت کا درس دینا ہو گا۔ ورنہ جو کچھ ہو رہا ہے ۔ لوگ اسے دیکھ کر صرف توبہ توبہ ہی کرسکتے ہیں۔
جرمن سفیر کی پاکستان میں خود موٹر سائیکل چلانے کی خواہش
یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ پاکستانیوں کوبھی جرمن سفیر کی جانب سے ملک میں حالات کی بہتری پر اعتماد کرتا دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ جرمن سفیر ویسے بھی عوامی مزاج کے آدمی ہیں کبھی پشاور میں کسی سڑک کنارے ریڑھی والے سے پھل خریدتے نظر آتے ہیں کبھی اسلام آباد میں کچرے سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ اب ان کی موٹرسائیکل چلانے کی خواہش سر آنکھوں پر۔ بس انہیں ایک مشورہ ہے کہ خدا را موٹر سائیکل کسی چھٹی والے دن‘ بہتر ہے اتوار کو چلانے کے لئے اسلام آباد میں باہر نکلیں۔ خدانخواستہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی دنوں میں کوئی خطرہ ہے۔ بس مسئلہ یہ ہے کہ وہ جی بھر کر سیر کریں ۔ موٹر سائیکل چلائیں چاہیں تو ون ویلنگ بھی کر لیں۔ بس دھیان یہ رکھیں کہ کسی شہری سے ان کی ٹکر نہ ہو کیوں کہ ہمارے اکثر غیر ملکی سفیروں خاص طور پر امریکی سفارتی عملہ کا ریکارڈ اس معاملے میں خاصہ خراب ہے اس لئے اتوار کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور جرمن سفیر دل کھول کر موٹر سائیکل چلائیں۔ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں مثبت پیغام جائے گا کہ وہ ایک محفوظ ملک ہے۔ اس طرح ہو سکتا ہے بعد میں پہلے کی طرح اسلام آباد میں غیر ملکی سفیر اطمینان سے اپنی بیگمات کے ساتھ سڑکوں پر مٹرگشت کرتے بھی نظر آئیں۔
٭٭٭٭
بھارت میں سائبر ٹھگوں نے دوبارہ اے ٹی ایم پر کلوننگ جال بچھا دئیے
بھارت میں گزشتہ ماہ ایک زبردست فلم ’’ٹھگ آف ہندوستان‘‘ پیش کی گئی۔ اس کی بڑی اشتہاری مہم بھی چلی۔ فلم میں نامور ہیرو امیتابھ اور عامر خان کے نام ہی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔ مگر نجانے کیوں یہ فلم اپنی لاگت بھی پوری نہ کر سکی ا ور فلاپ ثابت ہوئی۔ یہ تو کہانی تھی فلمی ٹھگوں کی مگر اصلی ٹھگ ابھی تک ہندوستان میں جا بجا اپنی کارروائیاں ڈالتے پھرتے ہیں۔ ماضی کے ہندوستان میں جب تاج برطانیہ کا دور دورہ تھا ہندوستان کی سڑکوں پر عام طور پر ٹھگوں کا زور چلتا تھا۔
ان ٹھگوں پر بعدازاں کئی فلمیں بھی بنیں جن میں ’’بھوانی جنکشن‘‘ بے مثال رہی۔ ان دنوں امیر علی ٹھگ کا راج تھا۔ انگریزوں نے کڑی سزائیں دے کر ان ٹھگوں کا خاتمہ تو کر دیا مگر جدید دور میںنت نئے ٹھگ سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں سائبر کرائم والے ٹھگوں کا شہرہ پوری دنیا میں ہے۔ یہ نت نئے طریقوں سے بنکوں کے محفوظ نظام میں نقب لگا کر اکائونٹ ہولڈروں کو لوٹتے ہیں۔ اے ٹی ایم میں کلوننگ کر کے خود وضع کردہ متبادل نظام لگا کر رقوم نکلوانے کے کیس پہلے عام تھے جن پر کچھ عرصہ سخت اقدامات سے قابو پایا گیا مگر اطلاعات کے مطابق بھارت میں پھر یہ ٹھگ سرگرم ہو گئے ہیں لہٰذا پاکستانیوں کو ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے جہاں پہلے چینی ٹھگ نہایت اطمینان سے اسی قسم کارروائیاں کرتے پکڑے گئے جن سے وارداتیں کم تو ہو گئیں مگر اب پاکستانی ٹھگ خود یہ کاروبار سنبھال چکے ہیں اس لئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ ابھی تو لوگ اے ٹی ایم میں کیمروں کے باوجود ڈاکوئوں کی دست برد سے محفوظ نہیں ہیں‘ ان سائبر ٹھگوں سے کیسے نبرد آزما ہوں گے۔
٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024