سکھ مت کے بانی بابا گرونانگ جی مہاراج کی یاد تو ہر سال تازہ ہو جاتی ہے جب نومبر کے مہینے میں تمام دنیا سے سکھ یاتری ننکانہ صاحب آتے ہیں اورپورن ماشی کی رات کو باباجی کی پالکی اٹھاکر سارے شہر میں گھومتے ہیں ۔ وہ بابا جی کا جنم دن ہوتا ہے جیسا کہ ننکانہ ان کی جنم بھومی ہے نانک 1469ء میں پیدا ہوئے ۔ جلوس میںصرف ایک ہی نعرہ گونجتا ہے ۔ ہمارے نانک ، تمہارے نانک ، سب کے نانک اور یہی ان کا مسلک تھا۔ محبت ، رواداری ، اخلاص ، انصاف اور سب سے بڑھ کرتوحید ! اس مذہب کا تمام فلسفہ اس تثلیث کے گرد گھومتا ہے ۔ (1) نام چپو (2) ونڈ چکھو اور (3) کرت کرو! ذکر تمام مذاہب کا جزو لاینفک ہے ۔ مسلمان قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ ہندو رام نام جپتے ہیں۔اسی طرح خالصے بھی گرنتھ پاٹ کرتے ہیں، ونڈ چکھو ، یعنی مل جل کر کھائو ، باالفاظ دگر ایک دوسرے کی مدد کرو، دین مبین میں اس بات کی خاص ہدایت کی گئی ہے کہ کھانے سے پہلے تسلی کرلو کہ پڑوسی بھوکا تو نہیں ہے ۔یہ بات حقوق العباد کے زمرے میں آتی ہے جوعین عبادت ہے ۔ہر کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا یا اس کے بندوں کی فلاح کے لئے کیا جائے، عبادت ہے ۔ عبادت کا یہی وہ اعلیٰ وارفع مفہوم ہے جو دین مبین کو دیگر مذاہب سے منفرد اور ممتاز کرتا ہے۔ مارکس نے اسی فلسفہ زندگی سے متاثر ہو کر اپنی تھیوری ’’داس کیپٹل ‘‘ پیش کی تھی۔ اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ علامہ اقبال کے الفاظ میں وہ لا تک پہنچ گیا تھا ۔ مگر اللہ تک نہ پہنچ پایا اور یہ بہت بڑی خامی تھی ۔ …؎
صاحب سرمایہ از نسل خلیل
یعنی آں پیغمبر بے جبرائیل
بابا گورونانک کو بھی علامہ نے ہدیہ تبریک پیش کیا ہے ۔
پھر صدا توحید کی اٹھی ادھر پنجاب سے
ہندکو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
تیسرا شبد یہ ہے کہ انصاف کرو!حضرت علی کا قول ہے کہ معاشرہ کفر کی حالت میں تو شاید قائم رہ جائے ۔ انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ بابا جی کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے مسلمان اولیاء کے کلام اور افکار سے بھرپور استفادہ کیا۔ خاص کر بابا فرید سے وہ خاصے متاثر تھے ۔ ایک دفعہ سوتے ہوئے نا دانستہ طور پر ان کے پائوں کعبہ کی طرف ہوگئے ۔جو مرید ان کے پائوںدبا رہاتھا اس نے دبے الفاظ میں کہاکہ مسلمان اس سمت پائوں نہیں کرتے کیونکہ ادھر اللہ کا گھر ہے۔ اس پر مہاراج ترنت بولے ’’ پھر میرے پائوں ادھر کر دو جدھر رب نہیں ہے ‘‘ ! پتہ نہیں کہ بابا جی فلسفہ وحدت الوجود کے قائل تھے یا نہیں ، لیکن ان کا کہاہوا شبد اس طرف اشارہ ضرور کرتا ہے ۔…؎
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی وجود؟
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟
گرنتھ صاحب کی تکمیل پانچویں ارجن دیوجی (1563-1606) نے کی ۔ نویں گرو تیغ بہادر کو اورنگ زیب نے قتل کروا دیا۔ دسویں گرو گوبند سنگھ جی کے زمانے میں سکھوں میں عسکریت آئی ان کا دور 1666-1708 تک کا ہے۔
ننکانہ صاحب کا قصبہ لاہور سے مغرب کی طرف قریباً ساٹھ میل کے فاصلے پر ہے یہ قصبہ اب ٹائون بن گیا ہے ۔ 1976میں میرا تقر بطور اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ صاحب ہوگیا ۔ اس وقت تک یہ ضلع نہیں بنا تھا بلکہ ضلع شیخوپورہ کی ایک تحصیل تھا۔ ضلع کے سربراہ میاں فیض کریم تھے۔ جب بھی ننکانہ دورے پر آتے تو گوردوارہ جنم استھان کا چکرضرور لگاتے اور اس کی تزئین و آرائش کیلئے اپنے مفید مشوروں سے نوازتے۔ گو کٹر مسلمان تھے مگر ان کی شخصیت میں کہیں نہ کہیں خالصاتی رنگ ضرور جھلک مارتا ہوا نظر آتا۔ میں چار سال تک وہاں تعینات رہا‘ اس عرصے میں سکھوں کے مزاج‘ نفسیات اورخیالات جاننے کا نادر موقع ملا۔ ان کے سالانہ اجتماع کے وقت اے سی کا دفتر گوردوارے کے اندر شفٹ ہو جاتا تھا۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسی کے گرگان باراں دیدہ‘ ہر ملاقاتی پر کڑی نظر رکھتے۔ ایک طرح سے وہ سکھوں کی عبادات اور پوجا پاٹ پر بھی کڑی نگاہ رکھتے۔ انہیں خالصوں کی مقامی باشندوں سے میل ملاقات قطعاً گوارا نہ تھی۔ وہ فوراً اپنے ہیڈ کوارٹر میں بڑھا چڑھا کر اور نمک مرچ لگا کر رپورٹ کر دیتے۔ واپسی پر یاتری کی باقاعدہ جواب طلبی ہو جاتی۔ پاکستان کی سپیشل برانچ کے اہلکار بھی اپنی کارروائی ڈالتے رہتے۔ اس بے جا مداخلت پر سکھ سیخ پا تو ضرور ہوتے مگر ساتھ ہی بے بسی کا اظہار کرتے۔ ایک دن امرتسر سے آیا ہوا ایک خالصہ پھٹ پڑا۔ صاحب ہم سے بڑا پاپ ہوا ہے اور آج تک اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کاش اس وقت ماسٹر تارا سنگھ قائداعظم کی بات مان لیتے اور پاکستان کی طرح خالصتان کا مطالبہ کر دیتے۔ اب تو اس بات پرواں زبان کٹتی ہے۔ را کے ہاتھوں پھنسا ہوا آدمی باہوش و حواس جیل سے واپس نہیں لوٹتا۔
1977ء میں جالندھر سے کمشنر انکم ٹیکس اپنی فیملی کے ہمراہ آئے۔ ان کی دھرم پتنی کے علاوہ تین پتریاں بھی ہمراہ تھیں۔ بڑی ڈاکٹر تھی۔ درمیانی کسی کالج میں پڑھاتی تھی اور چھوٹی عمر کے اس حصے میں تھی جس پر عمر خیام کی رباعی کا گمان ہوتا تھا۔ جوش مرحوم زندہ ہوتے تو اپنی مشہور نظم فتنہ خانقاہ کے علاوہ ایک اور نظم ’’فتنہ جانکاہ‘‘ لکھتے۔ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے ان سے علیک سلیک ہو گئی۔ ان کی بیگم نے نوجوان نسل کے مسائل‘ خواہشات اور نفسیاتی الجھنوں کے متعلق کھل کر بات کی۔
میری تعیناتی کے دوران دو اہم شخصیتیں گوردوارہ جنم استھان دیکھنے تشریف لائیں۔ انڈین کرکٹ ٹیم اپنے کپتان بیدی کی سربراہی میں ’’ماتھا ٹیکنے‘‘ آئی۔ حکومت کی ہدایت پر میں نے ان کیلئے دعوت کا اہتمام کیا۔ بیدی کے علاوہ سنیل گواسکر‘ مہندر امرناتھ‘ سریندر امرناتھ سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں مشہور کرکٹر لالہ امرناتھ کے پسران تھے۔ لالہ جی دلچسپ شخصیت کے حامل تھے۔ کھیل کے دنوں میں تو ڈاکٹردلاور حسین کی طرح غصہ ان کی ناک پر بیٹھا رہتا۔ آؤٹ ہونے کی صورت میں امپائر سے باقاعدہ بدسلوکی کرتے۔ ڈاکٹر دلاور تو ایک مرتبہ پچ پر لیٹ گئے تھے۔ یہ مغلظات کی ڈکشنری کھنگالتے ہوئے پویلین کی طرف لوٹ جاتے۔ لالہ جی نے ریٹائر ہوکر جب کمنٹری شروع کی تو ایک لفظ ہی انکے ورد زبان ہوتا۔ My son is inthe driving seat کیپل دیو اس وقت ہریانہ یونیورسٹی میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کا طالبعلم تھا اور اپنا پہلا میچ کھیل رہا تھا۔ میں نے اسے اچھا بائولر بننے کی بشارت دی۔ ممنون آمیز لہجے میں بولا۔ آپ بھگوان سے پرارتھنا کریں، میں کوشش کروں گا۔ مہندر امر ناتھ کی دھرم پتنی بھی ساتھ تھیں۔ جس خشوع و خضوع کے ساتھ اس نے گوردوارے کی دہلیز پر ’’ماتھاٹیکا‘‘ اس سے یہی گمان ہوا کہ ہندو اب بھی اپنے آپ کو سکھوں کے قریب سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تقسیم سے قبل ہندو اپنی ایک لڑکی کا ’’وِواہ ‘‘ (شادی) سکھوں کے گھرانے میں کرتے تھے۔ اس سے اُنہیں تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔انیسویں صدی میں انہوں نے گردوارہ پر قبضہ کر لیا۔ مقصد عقیدت سے زیادہ منفعت تھا۔ ایک خونریز لڑائی کے بعد سکھوں نے اسے آزاد کرایا۔
دوسری شخصیت دلی کی جامعہ مسجد کے امام عبداللہ بخاری تھے۔ کھانے کے دوران امام آبدیدہ ہو گئے۔ وجہ پوچھی تو بولے۔ ’’اے ۔ سی صاحب ! آپ خوش قسمت ہیں کہ کھانے کے دوران آپکو ہندو بلوائیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ گئوماتا کی ہتیا کا بہانہ بنا کر یہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیتے ہیں۔ آپ آزادی کی قدر کریں ا ور خدا کا شکر ادا کریں۔
تقسیم کی سب تلخیاں بھلا کر مسلمانوں نے سکھوں کو معاف کردیا ہے۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہندوئوں کی انگیخت پر کیا۔ گردواروں کی تزئین و آرائش دیکھ بھال اور پوتر تا برقرار رکھنے میں حکومت پاکستان نے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ جب بھی سکھ یاتری یہاںآتے ہیں چار سُو ایک ہی صدا اٹھتی ہے۔ ’’جی آیاں نوں!‘‘ ذرا تضاد دیکھیں۔ وہاں بابری مسجد گرا دی گئی ہے۔ رام مندر بنانے کے لئے تگ و دو ہو رہی ہے اور ادھر کٹاس مندر کی بحالی تزئین نو کا بیڑہ خود چیف جسٹس صاحب نے اٹھا رکھا ہے۔ اُدھر تعصب کا غلبہ ہے ا ور اِدھر تحمل کی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔
اب حکومت نے کرتار پور بارڈر کھول کر نیک نیتی اور صاف دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ باایں ہمہ ہندوستان ممنون نہیں بلکہ مشتعل ہے۔ وزیراعظم کی چار سُو تعریف کی جا رہی ہے۔ اس کے وہ مستحق ہیں۔ البتہ ان کی اجتماع سے تقریر محل نظر ہے۔ فرماتے ہیں۔ ’’کیا ہم فرانس اور جرمنی کی طرح ایک یونین نہیں بنا سکتے؟‘‘ اس سلسلے میں انہوں نے دو جنگوں کی مثال دی ہے۔ ایسا ہونا بوجوہ ممکن نہیں ہے۔ وہاں دونوں ملکوں کے عوام میں وہ تعصب، تنگ نظری اور کدورت نہیں پائی جاتی جس سے ہندو قوم دوچار ہے۔ اس کی نظر ایک ہزار سالہ تاریخ پر ہے اور یہ پرانا حساب چکانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بارڈر کھول دئیے ہیں۔ ان کی کرنسی ایک ہے۔ مذہب بالعموم ایک ہے اور معاشی، اقتصادی، معاشرتی سوچ بھی یکجا ہو گئی ہے۔ برصغیر میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ بالفرض ایسا ہو جائے تو پھر الگ ملک بننے کا نظریہ فوت ہو جاتا ہے۔ اگر FUNCTIONAL RELATION SHIP قائم ہو جائے تو بڑی بات ہو گی۔ معروضی حالات میں کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان غاصب ہے۔ غاصب سے قبضہ بزور شمشیر ہی چھڑایا جا سکتا ہے۔ جوہری طاقت ہونے کے ناطے فی الوقت یہ مشکل ہے۔ آنے جانے اور اُٹھک بیٹھک سے حکومتیں اپنا وقت تو پورا کر سکتی ہیں، کسی نتیجہ خیز حل تک نہیں پہنچ سکتیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024