فرزند راولپنڈی کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے’ لال حویلی کا بقراط عصر جب ٹلیاں کھڑکاتا تھا تو بھونچال آجایا کرتا تھا۔ تبدیلی کا سب سے زیادہ ’’نفع‘‘ ہر دور اور ہر حکمران کے ترجمان شیخ رشید احمد نے کمایا ہے عمران خان نے اقرباء پروری کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کی سب سے تباہ کن مثال لال حویلی کے مکین کے بھتیجے کو رکن قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے کر قائم کی گئی۔ جس دن یہ قرعہ فال نکلا تو راولپنڈی سے کتنے ہی پارٹی کے بنیادی کارکن آنکھوں میں گھوم گئے۔ واقعی شیخ صاحب سے بڑا سیاست کا کھلاڑی کون ہوسکتا ہے؟ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنا، کسی کو شیشے میں اتارنا اور پھر دل شیشہ پتھر کرلینا، ان سے بڑھ کر کون جانتا ہے۔ ’’فن میں ایسے تاک کہ نوازشریف کے بالکل اْلٹ جنرل پرویز مشرف اور پھر بالکل اْلٹ عمران خان، ہر پِچ پر ’بال‘ کھیلنا اْن پر ختم ہے۔ ایسے ’فنکار‘ کو سیاست کی طلسم ہوش ربا کا ’سامری جادوگر‘ نہ کہیں تو اور کیاکہا جاسکتا ہے۔ ایک گڑھے کے گرد مجمع دیکھ کر کسی نے سبب پوچھا’ بتایا گیا ایک لالہ گڑھے میں گرگیا ہے۔ کئی گھنٹے سے نکالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ لالے کو کہتے ہیں ’ہاتھ دو‘ لیکن وہ ہاتھ نہیں پکڑاتا’ یہی مشکل ہے’ سیانے نے مجمعے کو ایک طرف کیا اور خود آگے بڑھ کہا ’لالہ جی ہاتھ لو‘ ، یہ سنتے ہی جھٹ سے گڑھے میں موجود لالے نے ہاتھ پکڑ لیا اور اسے کھینچ کر باہر نکال لیاگیا۔ مجمع نے سیانے کو گھیر کر وجہ دریافت کی تو اس نے کہا کہ یہ لالہ ہے۔ یہ صرف لینے پر یقین رکھتا ہے کچھ دینے پر نہیں۔ ہمارے شیخ صاحب جس دام میں، دھڑی میں اور لاٹ میں فائدہ ہو، فورا سمجھ جاتے ہیں اور جہاز، ٹرک، ٹرین، ٹرالی، موٹر سائیکل اور سائیکل بدل لیتے ہیں۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ بنیادی طورپر شیخ صاحب ‘‘ ان کا ٹیلنٹ ’باتوں کا کاروبار‘ ہے۔ اب تو مدتیں ہوتی ہیں وزیراعظم نوازشریف کسی بات پر شیخ صاحب سے ناراض ہوگئے توایک برخوردار کو شیخ رشید کی طبیعت صاف کرنے کا ‘ٹاسک’ دے دیا۔ اس لئے فرط جذبات میں مغلوب ہوکر استقبالیہ قطار میں کھڑے شیخ رشید کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑ دیا۔اور شیخ صاحب سرعام اپنا دکھڑا سناتے رہے ۔ نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں موصوف کو وزارت ملنے میں کچھ تاخیر ہوئی تو پارلیمنٹ ہاوس کے کیفے ٹیریا میں صحافیوں کو بٹھالیتے اور دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے ہر دم ملک کی تباہی کی گردان پڑھتے رہتے۔ پھر یکایک ان کی وزارت کا بھی اعلان ہوگیا تو اگلے روز وہ نوازشریف کے اوصاف گنوانے میں سب کو پیچھے چھوڑ گئے۔ تو یہ ان کا جوہر ہے کہ وہ بات کو پھیرنے میں یدطولٰی رکھتے ہیں۔ یہ تمام باتیں اس تازہ ’کارروائی‘ سے یاد آئیں جس میں شیخ رشید نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے انہیں وزارت اطلاعات سنبھالنے کی پیشکش کی ہے۔ ’’منہ آئی بات نہ رہندی اے‘‘ کے مصداق سچ ان کی زبان سے پھسل ہی گیا لیکن بْرا ہو اس میڈیا کے کیمرے اور مائیک کا۔ ’’آئی ہو تو کون روک سکتا ہے‘‘ شیخ صاحب لاہور میں پریس کانفرنس شروع ہونے سے قبل ایک صحافی کو رازدار بنارہے تھے اور فرمارہے تھے کہ ’’کل وزیراعظم عمران خان کے ساتھ 4 میٹنگز ہوئیں، وزیراعظم نے کہا کہ وزارت اطلاعات میں آجائیں۔‘‘ موجودہ وزیراطلاعات چوہدری فواد حسین کے بارے میں فرماتے ہیں ’’وہ لندن میں 8 روز سے پکنک منارہا ہے۔ اْسے لندن سے واپسی کیلئے کہاگیا ہے۔‘‘ پھر یہ کہہ کر تو گویا انہوں نے کمال ہی کردیا کہ وزارت دی گئی تو ’’میں کہوں گا۔ (Love you)۔ تھینک یو ویری مچ ‘‘۔شیخ صاحب کی مثبت سوچ پر مثبت سوچ نہ دکھانے والے میڈیا نے جب ان کی یہ رازدارانہ گفتگو عام کردی تو پھرانہوں نے اپنی صلاحیتوں کا جادو جگاتے ہوئے فورا پینترا بدلا۔ اپنے ’’بیان‘‘ کی ’’وضاحت‘‘ میں شیخ رشید نے کہا کہ فواد ’’چوہدری بہترین وزیر اطلاعات ہیں اور میں انکے ساتھ کھڑا ہوں۔ فواد چوہدری انتھک محنتی ہے، کوئی سوچے بھی نہیں کہ میں انکے خلاف ہوں، کوئی یہ نہ سوچے کہ میں فواد کی جگہ لے سکتا ہوں۔‘‘ واہ واہ۔شیخ صاحب نے پوری معصومیت اور سچائی کی تصویر بنتے ہوئے مزید فرمایا ’’دنیا ا دھر کی ادھر ہو سکتی ہے لیکن میں وزیر اطلاعات بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ ایک بات تو ایسی کی کہ ہنس ہنس کر لوگ لوٹ پوٹ ہوگئے۔ کہتے ہیں ’’لندن پکنک کی بات مذاق میں کہی تھی، فواد سے کل بات ہوئی انہیں کہا کہ حالات ایسے ہیں کہ آپ واپس آجائیں، آپکی بہت ضرورت ہے۔‘‘ پھر ’’واشنگ لائن‘‘ تک ٹرین پہنچاتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’مجھے وزیر اطلاعات بننے کا کوئی شوق نہیں ہے، ریلوے میں بہت خوش ہوں اور اسی شعبے میں کارکردگی دکھاؤں گا۔‘‘ بے اختیار منہ سے نکلا ؎
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
اپنے بیانات سے اپوزیشن کو جلا کربھسم کردینے والے چوہدری فواد حسین نے شیخ صاحب کی ’دل لگی‘ پر برطانیہ سے سوشل میڈیا پر ٹویٹ جاری کرکے کچھ یوں پیشکش کی ’’شیخ رشید کیلئے اپنی وزارت چھوڑنے کیلئے تیار ہوں۔‘‘ کمال کردیا چوہدری صاحب۔ واہ۔ واہ۔
چوہدری فواد صاحب ’’جہلمی‘‘ مزید فرماتے ہیں ’’میں بطور رکن قومی اسمبلی پاکستان کی خدمت کرتا رہوں گا لیکن یہ فیصلہ وزیراعظم کرینگے کہ اس وزارت کیلئے کون زیادہ موزوں ہے۔ جب تک وزیر ہوں ایڈورٹائزنگ لابی کی بلیک میلنگ میں نہیں آوں گا۔‘‘
وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے بھی ’’وزیر اطلاعات کی تبدیلی کی خبر میں صداقت نہیں‘‘ کا بیان جاری کیا۔ افتخار درانی صاحب نے ’’تصدیق‘‘ کی کہ ’’فواد چوہدری بہترین کام کر رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان انکی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ وزیراعظم سے ملاقاتوں سے متعلق شیخ رشید خود بہتر بتا سکتے ہیں۔‘‘افتخار درانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’وزارت اطلاعات میں تبدیلی کے حوالے سے مجھے کچھ علم نہیں ہے، اس حوالے سے پیر کو مختلف وزارتوں کا جائزہ لیا جائے گا۔‘‘ دیکھتے ہیں اس میں سے کتنی صداقت برآمد ہوتی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ملتان سے اعلان فرمایا کہ ’’فوادچوہدری اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ شیخ رشید کے دعوے کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔‘‘شیخ صاحب اپنی کارکردگی ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف عمل ہیں۔ پریس کانفرنس کرکے عمران خان سمیت پوری دنیا کو بتارہے ہیں کہ وہ کتنے متحرک اور فعال ہیں۔ سو دن میں ایک ارب روپے کما کر ریلوے کو دینے کا دعوی کرکے انہوں نے سیاسی دشمنوں اور اپنے حاسدین کے منہ ہی گویا بند کردئیے ہیں یہ الگ بات ہے کہ خوشحال خان ایکسپریس پٹڑی پر دوڑنے سے پہلے پھسل پھسل جاتی رہی۔ خواجہ سعد رفیق دھائی مچاتا رہا کہ پٹڑی بہتر بنالیں پھر ضرور ٹرین دوڑائیں لیکن شیخ صاحب مخالفین کی بات کب سننے والے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مسافروں کی جان بچ گئی۔
12 اکتوبر 1999ء کے بعد اس وقت کے پاکستان مسلم لیگ (ن) ہاوس، (جو اَب پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ’’زیراستعمال‘‘ ہے) میں اگلی ہی صبح شیخ رشید صاحب جلوہ گر تھے اور رپورٹرز کے جلو میں وضاحتیں پیش کررہے تھے کہ ’’نوازشریف نے مروادیتا اے جی۔‘‘ ایک نوجوان رپورٹر نے تنگ آکر شیخ رشید صاحب سے کہاکہ ’’شیخ صاحب! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال آپ سوئے ہوئے تھے۔ 12اکتوبر1999ء کی صبح اچانک آپ کی آنکھ کھْلی ہے اور آپ کو پتہ چلا ہے کہ نوازشریف بہت بْرا آدمی ہے حالانکہ پانچ سال آپ نے تعریف میں کسی کو آگے نہیں نکلنے دیا۔‘‘اور پھر ہمارے پیارے محمد علی درانی نے وزارت اطلاعات چھین کر انہیں ریلوے کی راہ دکھائی تھی انہیں دنوں ماضی کے متحرک مدیر جاوید قریشی اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کے ہمراہ ایک درجن سے زائد ممالک کا دورہ کرکے واپس لوٹے تھے وزارت اطلاعات کے چوتھے فلور پر اچانک آمنا سامنا ہو نے پر شیخ رشید نے چوٹ کرتے ہوئے کہا قریشی صاحب ‘‘کدی پاکستان دے دورے تے وی آجایا کرو’’ قریشی صاحب نے ترنت جواب دیا اس وقت بھی پاکستان کی سرزمین پر کھڑا ہوں جس پر ٹلیاں کھڑک گئیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024