گلگت بلتستان کا رقبہ تقریباً 29 ہزار مربع میل ہے۔ آبادی 19 لاکھ کے قریب ہے۔ اسکی سرحدیں پاکستان ، چین ، افغانستان، آزادکشمیر سے ملتی ہیں۔ 4 بڑی ایٹمی قوتوں، پاکستان ، چین ، بھارت اور روس کے درمیان واقع ہے۔ جدوجہد سے یکم نومبر 1947ء کو آزادی حاصل ہوئی۔ اقوام متحدہ کی ایک درجن سے زائد قرار دادوں جس میں کشمیر کا ذکر ہے اس کا رقبہ 84000 مربع میل ہے جس سے گلگت بلتستان 29000 اور 4500 آزاد کشمیر کا ہے۔ بڑے حصے پر بھارت نے جبراً قبضہ کر رکھا ہے۔ 28 اپریل 1949ء کو حکومت آزاد کشمیر اور اس وقت کی بڑی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس اور حکومت پاکستان کے درمیان ایک معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام و کنٹرول عارضی طور پر حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ پاکستان کی تمام حکومتیں اسکے انتظامی معاملات کے حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرتی رہی ہیں۔ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے دور حکومت میں بھی اس کو صوبے کا سٹیٹس دینے کی کوشش کی گئی۔ لیکن کشمیری قیادت کی مخالفت سے یہ نہ ہو سکا۔ موجودہ حکومت بھی اس کو صوبے کا سٹیٹس دینا چاہتی ہے جس کا مقصد اسکی آئینی اور تاریخی حیثیت کو بدلنا ہے۔ اس سے مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے ، بھارت کی پالیسیوں کو تقویت دینے ، کشمیریوں کی جدوجہد ‘پاکستان کی جانی اور مالی قربانیوں کو نقصان پہنچانے اور رائیگاں کرنے کیلئے مترادف ہے۔ جس سے حکومت پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر مئوقف کمزور ہو گا۔ اس سلسلے میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں بھی متفقہ قرار داد پاس کی گئی۔ اس پر اظہار کرتے ہوئے تمام ممبران اسمبلی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی آئینی اور قانونی حیثیت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسی ترمیم سے گریز کیا جائے۔ حکومت پاکستان پر زور دیا گیا کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا سٹیٹس دیئے بغیر وہاں کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دیئے جائیں۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ اس معاملے پر آزاد کشمیر کی تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ دوسری قرار داد کے ذریعے جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر سردار خالد ابرہیم کی وفات پر دکھ کا اظہار اور دعائے مغفرت کی گئی اور انکی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اس سلسلہ میں آزاد کشمیر کے سابق وزیرا عظم اور تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جو کہ مسئلہ کشمیر آگاہی کے حوالے سے پوری دنیا میں ملین مارچ کرنے کی بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی اور قدیم بار لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی آئندہ الیکشن میں کامیابی کیلئے مقبوضہ کشمیر میں بربریت میں اضافہ کیا ہے تا کہ ہندوئوں کی ہمددریاں حاصل کریں۔ 35-A کا خاتمہ اس سلسلے کی کڑی ہے تا کہ کشمیر سے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے۔ مسلمانوں اور پاکستان کی مخالفت مودی کا منشور ہے۔
اسکے برعکس پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ہر پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے UNO میں بھر پور ترجمانی کی ۔ کشمیر ایشو پر پوری دنیا میں حال ہی میں پانچ ملین مارچ کیے ہیں۔ دیوار برلن کی طرح جلد کشمیری کنٹرول لائن کو توڑ ڈالیں گے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر تحقیقات کیلئے غیر جانبدارانہ انکوائری کا مطالبہ کیا ہے اور برطانوی پارلیمنٹ سے کشمیر پر رپورٹ پیش کر دی گئی ہے جبکہ یورپی یونین کی رپورٹ جلد آنیوالی ہے۔ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ نہیں دیا جائیگا۔ اجلاس کی صدارت ہائی کورٹ بار کے صدر نور محمد سرمد نے کی۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل غلام محی الدین دیوان اور کشمیری وکلاء کی کثیر تعداد موجود تھی۔ دورہ لاہور کے دوران انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور مہاجر جموں کشمیر نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے بھی کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ کا سٹیٹس دینا درست اقدام نہیں ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو مسئلہ کشمیر کی جغرافیائی ، تاریخی ، آئینی حیثیت بدل جائیگی۔ لوگوں کی لاکھوں قربانیاں رائیگاں جائیں گی۔ پاکستان کا مٔوقف کمزور ہو گا۔ بھارت خوشی کے شادیانے بجائے گا۔ جو لوگ عمران خان کو مشورے دے رہے ہیں وہ انکے دوست نہیں ہو سکتے۔ میں نے حکومت پاکستان اور عمران خان کو یہی پیغام دیا ہے۔
روزنامہ صدائے چنار آزاد کشمیر کے چیف ایڈیٹر امجد چوہدری کی میزبانی میں لاہور کے مقامی ہوٹل میں مسئلہ کشمیر اور موجودہ حالات کے تناظر میں آل پارٹی سیمینار منعقد کیا گیا جس میں پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر ، پاکستان مسلم لیگ آزاد کشمیر ، آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس، پاکستان پیپلز پارٹی، جموں کشمیر لبریشن فنڈ، جماعت اسلامی آزاد کشمیر، لیبر پارٹی برطانیہ، تنظیم گلگت بلتستان ، وکلائ، صحافی ، دانشوروں اور مہاجرین جموں کشمیر کے نمائندگان نے شرکت کی۔ا جلاس میں مختلف قرار دادیں پاس کی گئیں جس میں مقبوضہ کشمیر میں شہادتوں اور بھارتی افواج کے ظلم و ستم کی شدید مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل رائے شماری ہے۔ پاکستان اور بھارت اپنی فوجیں نکالنے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کروائیں۔ مقررین نے کہا کہ کرتار پورہ بارڈر کے آر پار آنے کی فری ویزہ انٹری دی گئی ہے۔ اسی طرح کشمیریوں کو بھی بغیر ویزہ کنٹرول لائن کے آر پار اپنے عزیزوں سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ کانفرنس کے میزبان اور صدائے چنار کے چیف ایڈیٹر امجد چوہدری نے کہا کہ سیمینار کا مقصد مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے ہموار کرنا ہے۔ اسی طرح پورے ملک اور آزاد کشمیر میں مزید پروگرام کرائے جائینگے۔ مسئلہ کشمیر پر آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اندرون اور بیرون ملک صحیح طریقے سے اجاگر نہ ہو سکا۔ مزید شعور پیدا کرنا ہو گا۔ کشمیریوں کو بھی پاک بھارت مذاکرات کا حصہ بنایا جائے۔
تحریک انصاف آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل اور ممبر کشمیر اسمبلی غلام محی الدین دیوان نے کہا کہ کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے۔ بیس کیمپ حکومت خود عدم استحکام کا شکار ہے۔ سارے ممبران کو وزیر بنا دیا گیا ہے جس سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ کارکردگی صفر ہے۔ امریکہ کا دہرہ معیار ہے۔ وہ اسرائیل اور بھارت کی پشت پناہی کرتا ہے۔ جب تک اقوام متحدہ اور سپر طاقتیں سوڈان اور مشرقی تیمور کی طرح کشمیر پر بھی نوٹس نہیں لیتیں حل نا ممکن ہے۔ سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں نے مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچایا۔ سیاسی لالچ کے طور پر مولانا فضل الرحمن کو 10 سال تک کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا جو زیادتی ہے انہوں نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ موجودہ حکومت کشمیر کو کور ایشو سمجھتی ہے۔ اسکے حل سے ہی پاک بھارت ترقی اور جنوبی ایشیاء میں استحکام آ سکتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024