سی پیک پاکستان اور تین براعظموں کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ ہے مگر اس کے مخالفین بھی لنگر لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں ہیں اور نت نئے اعتراضات، اور رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں جناح رفیع فائونڈیشن جیسا قومی ادارہ کیسے خاموش رہ سکتا تھا اس کی ماہ رواں کی غیر معمولی میٹنگ میں امتیاز رفیع بٹ نے تمام اعتراضات کے شافی جوابات دیئے۔ میں اپنے کسی تبصرے کے بغیر یہ سب کارروائی یہاں نقل کر رہا ہوں۔
پہلا اعتراض: چین خطے میں نئی ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہو گا۔
جواب: امتیاز رفیع بٹ نے تاریخ کے صفحات کھنگالتے ہوئے کہا کہ ہزار سالہ ماضی کی تاریخ میں چین نے اپنی سرحدوں کے باہر قدم نہیں رکھے، کسی ملک پر حملہ نہیں کیا، اور کسی ہمسائے کی ایک چپہ زمین پر قبضہ نہیں کیا۔ جبکہ دنیا میں باقی تمام قوموںنے نوآبادیات قائم کیں، لوگوں کو اپنا غلام بنایا اور غلاموں کی کھلی منڈیا ںبھی قائم کیں، بر صغیر پر برطانیہ کا راج رہا۔ ہالینڈ جیسا چھوٹا سا ملک بھی دنیا پہ قبضوں پر قبضے کرتا رہا، پرتگال اور اسپین کو دیکھ لیجئے، فرانس کی مثال سامنے رکھیں، کوئی ملک انہوں نے غلام بنائے بغیر نہیں چھوڑا، ان کی زبان تک بدل دی، ثقافت بدل دی، لباس بدل دیا، نصاب تعلیم بدل دیا، اب آدھی دنیا فرانسیسی بولتی ہے اور باقی دنیا ہسپانوی زبان بولتی ہے، مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ چین نے کسی ملک کے اقتدار اعلیٰ کو غصب کیا، اس نے تو ہانگ کانگ کی واپسی کے لئے پچاس سال حوصلے اور تحمل سے انتظار کیا اور پھر یہ ملک پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آن گرا، اب وہ تائیوان سے بھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیںکر رہا، اس کی واپسی کے لئے بھی انتظار ہی کر رہا ہے، ان تمام حقائق کو سن کر کو ن اس پروپیگنڈے پر یقین کرے گا کہ چین ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہو گا اور پاکستان کی آ ٓزادی کو ہڑپ کر لے گا۔
دوسرا اعتراض: گوادر میں چینی ین کرنسی چلے گی، پاکستانی کرنسی کا داخلہ ممنوع ہو گا۔
جواب: امتیازرفیع بٹ کہتے ہیںکہ یہ سراسر جھوٹ اور افترا پردازی ہے، گوادر پاکستان کا علاقہ ہے، یہاں پاکستان کی کرنسی چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ چین نے نہ کبھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے، نہ کوئی دبائو ڈالا ہے کہ گوادر میں چینی ین کرنسی کے طور پر استعمال کیا جائے گا، چین کو بھی علم ہے کہ گوادر اس کا علاقہ نہیں، ایک گزرگاہ ہے، اس لئے وہاں حسب سابق پاکستانی کرنسی ہی سکہ رائج الوقت ہو گی۔ ہاں چین کی یہ خواہش ضرور ہے کہ جس طرح ڈالر کو عالمی تجارت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح چینی ین کو بھی باہمی تجارت میں استعمال میں لایا جائے، چین کی یہ خواہش بے بنیاد نہیں، وہ ایک عالمی طاقت ہے، وہ دنیا کی ایک بڑی معیشت ہے، چین سمجھتا ہے کہ ڈالر میں تجارت سے اسے گھاٹا پڑتا ہے، پہلے ین کو ڈالر میں تبدیل کرو۔ پھر مقامی کرنسی کو ڈالر میں تبدیل کرو، اس طرح چین کو بھی گھاٹا ہے اور چین کے ساتھ تجارت کرنے والے ملک کو بھی گھاٹا ہے، چین بجا طور پر سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک براہ راست اپنی اور ین کی کرنسی میں تجارت کریں، اس طرح دنیا سے ڈالر کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو سکے گا۔
تیسرا اعتراض: چین ابتدا میں پاکستان کو صرف نو فی صد منافع ادا کرے گا۔ اور باقی ساری کمائی خود ہڑپ کر جائے گا۔
جواب: امتیاز رفیع بٹ نے وضاحت کی کہ گوادر پورٹ کی ترقی و تعمیر کا پہلا معاہدہ سنگا پور سے ہوا تھا اور اس میں بھی ہو بہو یہی شرط یا رعایت تھی کہ جب تک بندرگاہ کے کاروبار میںنفع نقصان کا تعین نہیں ہوتا تب تک سنگا پور پاکستان کو آمدنی کا نو فیصد حصہ ادا کرے گا، چین نے گوادر منصوبے کاکنٹرول سنبھالا تواس کو بھی اسی معاہدے کی پیش کش کی گئی جو اس سے پہلے سنگا پور سے طے ہوا تھا، سابقہ معاہدے کی کسی شرط کو نہیں بدلا گیا،۔ نہ چین کو کوئی خاص رعائت دی گئی۔ اس طرح چین اگر شروع میں گوادر کی آمدنی کا نو فیصد پاکستان کو ادا کرے گا تو اس سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں، نہ چین کو کوئی خاص فائدہ ملے گا۔
چوتھا اعتراض: سی پیک سے پاکستانی شہری صرف محنت مزدوری کر کے کچھ کما سکتے ہیں، چائے کے کھوکھے لگا سکتے ہیں، سرائیں تعمیر کر سکتے ہیں یا چینی ٹرکوں کو پنکچر لگانے کا کام کر سکتے ہیں، یعنی صرف گھٹیا قسم کے کام ہی پاکستانیوں کے حصے میں آئیں گے جبکہ دودھ، اس کی بالائی اور اس سے نکلنے والا مکھن اور گھی چین ہضم کرتا رہے گا۔
جواب: امتیاز رفیع بٹ نے بتایاکہ یہ سب منفی پروپیگنڈہ ہے۔ اس وقت جب پاکستان میں کوئی دوسرا ملک ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں تھا، امریکہ جیسا ملک طے شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہماری اقتصادی اور دفاعی امداد تک بند کر رہا ہے تو یہ چین ہی ہے جو چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے تیار ہو گیا اور اس میں سے پچاس فیصد سے زیادہ کے منصوبے مکمل بھی ہو چکے ہیں جن میں بجلی کے تمام منصوبے شامل ہیں اور جن کی وجہ سے پاکستان میں لوڈ شیدنگ کے اندھیرے مٹ گئے ہیں، گھروں، دکانوں، کارخانوں اور دیگر کاروباری اداروں کو ان کی ضرورت کی بجلی فراہم ہو رہی ہے تو آپ سوچئے کہ کیا اس سے پاکستانی عوام کو روزگار کے نت نئے مواقع ملیں گے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سی پیک سے پاکستانی عوام کا مقدر بدل جائے گا۔ آپ صرف بلوچستان کی ہی ایک مثال لے لیں، یہ ملک کا امیر ترین صوبہ بن جائے گا۔
اعتراض: مگر ابھی تک گوادر میں کوئی کام تو ہو نہیں رہا، کہتے ہیں چین اس منصوبے کو ترک کر چکا ہے اور پاکستانی سرمایہ کاروں کی دلچسپی گوادر میں ختم ہو چکی ہے۔
جواب: جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین امتیاز رفیع بٹ نے یہ اعتراض سن کر ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا کہ گوادر میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی کی میں زندہ مثال ہوں ۔ کئی اور کمپنیاں بھی وہاں دن رات تعمیر و ترقی میں مصروف ہیں اور خود چینی انجینئرز شب و روز کام میں مشغول ہیں، گوادر کی بندرگاہ کو چالو حالت میں کیا جا چکا ہے اور ایک تجارتی قافلہ چین سے گوادر پہنچ کر اپنا سامان بحری جہاز پر لاد کر دنیا کے مختلف ممالک کی طرف بھجوا چکا ہے، اس کے بعد اس پروپیگنڈے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
امتیاز رفیع بٹ نے جذباتی انداز میں بتایا کہ بلوچستان سے قائداعظم محمد علی جناح کی محبت کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے زندگی کے آخری ایام اسی صوبے کے ایک صحت افزا مقام زیارت ریذیڈنسی میں گزارے۔ اس لحاظ سے بلوچستان بابائے قوم کی امانت ہے جسے ترقی دینا ہمارا فرض بنتا ہے اور ہم اپنے عظیم ہمسائے اور دوست چین کی مدد سے اس خواب کوشرمندہ تعبیر کر رہے ہیں۔
جناح رفیع جیسے تھنک ٹینک کی افادیت اس مباحثے سے پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے، ایسے ادارے ملک بھر میں ہونے چاہئیں جو وطن عزیز کا اچھا اور خوشگوار امیج ابھار سکیں اور پاکستان کے خلاف معترضین کا منہ بند کر سکیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024