مائنس نوازیا پلس نواز فارمولہ
یہ نوازشریف کا عدالت پہ بے پناہ اعتماد تھا یا سیاسی پریشر تھے کہ وہ عدالت کی جانب دوڑے آئے۔ یہ ان کی قانونی ٹیم کی سنگین غلطی تھی یا نوازشریف کی نیک نیتی کہ انہوں نے قانون کے برعکس یہ شرط تسلیم کرلی کہ وہ عدالت میں دائرۂ اختیار اور عمران خان کی درخواست کا قابل سماعت ہونے کا معاملہ نہیں اٹھائیں گے۔عدالت محترم ہے‘ قابل عزت واحترام ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جناب نوازشریف نے خود کو اپنے حق سے کیوں دستبردار کرلیا۔ معزز عدالت کے دو ججوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ایک جج نے ’’گاڈ فادر‘‘ کا ذکر کیا جس کا اب عمران خان بار بار ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور جناب نوازشریف کو بے دھڑک ’’ڈاکو‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس لفظ کے حوالے سے فیصلے کو کیوں Review نہیں کرایا گیا۔
تین محترم جج صاحبان نے جے آئی ٹی قائم کی۔ کیا وزیراعظم کے لئے ضروری تھا کہ وہ معمولی افسروں کے روبرو اپنے پورے خاندان سمیت پیش ہوتے۔ اس فیصلے کے خلاف فوری طور پر Review داخل کیوں نہیں کیا گیا۔ جے آئی ٹی کی تشکیل تک سب ٹھیک تھا بعد میں اعتراضات شروع ہوئے۔ ظاہر ہے Review کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ہم اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ ججوں نے آزادانہ فیصلہ نہیں کیا ہے اور فیصلے پر کوئی ادارہ یا فوج اثر انداز ہوئی ہے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے اور نہ کوئی امکان ہے۔ یہ بات درست ہوسکتی ہے کہ عمران خان کو ایسی Petition داخل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہو؟یہ بھی درست ہے کہ فیصلے سے قبل ایک بہت معزز اور محترم شخصیت اور عمران خان کے درمیان ملاقات ہوئی تھی جس کی تصویر T.V پر بھی پبلک کی گئی تھی۔ یہ بھی درست ہوسکتا ہے کہ درخواست دائر کرنے سے قبل عمران خان نے ایک پلاننگ کے تحت دارالخلافے کو بند کر دینے کی دھمکی دی اور بظاہر عملی اقدامات کیے۔ صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں ایک ’’عوامی فوج‘‘ اسلام آباد آنے کے لئے مزاحمت کرتی رہی۔ اسلام آباد اور پنجاب کے بعض شہروں میں ’’دو لسانی‘‘ طبقات کے درمیان تصادم کا خطرہ ہوگیا۔ عمران خان کو نہ نکلنا تھا نہ نکلے‘ مگر حکمران ہونے کی وجہ سے جناب نوازشریف کے اعصاب جواب
دے گئے۔ رہی سہی کسر وزیر داخلہ چودھری نثار بے سروپا مشوروں سے پوری کرتے رہے۔
جناب نہال ہاشمی نے جے آئی ٹی کے حوالے سے بے تکی باتیں کیں‘ ان کو طلب کرلیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جناب جاوید ہاشمی نے اختیار سماعت کو ہی چیلنج کر دیا مگر انہیں نہ بلا کر احتیاط کی گئی۔ امین اور صادق ہونے کا سوال اب تک روبرو ہے۔ تحریک انصاف کی ایک رکن اسمبلی جو خاتون ہیں انہوں نے بھی صادق اور امین کا سوال بہت زور وشور سے اٹھا دیا ہے۔ معزز اور محترم عدالت کی لازمی اور پرخلوص کوشش ہوگی کہ ترازو کے دونوں پلڑوں میں توازن برقرار رہے۔عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے مگر لوگ اپنی غلطیوں کو بھول کر سوالات اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عدالتوں کا بہرصورت احترام بے حد ضروری ہے بلکہ خود ملک کی بقاء کیلئے لازم ہے۔ ٹیپو سلطان ہوں یا لیاقت علی خان‘ ہمارے دور کے بھٹو ہوں‘ بینظیربھٹو یا نوازشریف‘ موت یا بے اقتدار ہونے سے عوام کے دلوں میں موجود رہنما کی محبت کم نہیں ہوتی۔ دس برس ضیاء الحق کی آمریت رہی مگر 1988ء کے الیکشن میں ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر بینظیربھٹو پھر اقتدار میں آگئیں۔ نوازشریف کو 1999ء میں جنرل پرویزمشرف نے بے اقتدار
کیا۔ خود پرویزمشرف مارے مارے پھر رہے ہیں اور نوازشریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ یہ درست ہے کہ جناب نوازشریف آج بے اقتدار ہیں مگر ان کی مقبولیت ایک سروے کے مطابق پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ مائنس نوازشریف فارمولا ایک بے وقت کی راگنی ہے۔ قیادت اور مقبولیت صرف اور صرف نوازشریف کی ہے۔نوازشریف نبھانے والے آدمی ہیں۔ سو احمقوں سے زیادہ گیارہ لائق لوگوں کی سپورٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔ ایک بے وقعت وزیر کے ڈراموں نے کیا کرلیا؟
بھٹو کو سپریم کورٹ نے پھانسی دی‘ بھٹو مر کر بھی زندہ رہا۔ مسلم لیگ(ن) نوازشریف کے ستون کے سہارے کھڑی ہے۔ نوازشریف کی مقبولیت مسلم لیگ(ن) کی فتح ہے جو مسلم لیگ(ن) سے الگ ہوں گے نوازشریف سے الگ ہوں گے۔ ہمارا تجزیہ ہے‘ چاہے حمزہ شہباز ہوں یا خود شہبازشریف اکیلے رہ جائیں گے۔ یہ پلس نوازشریف فارمولا ہے۔ پارٹی نوازشریف کے دم سے ہے۔ ووٹ نوازشریف کا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی شہرت اور مقبولیت نوازشریف کے دم سے ہے۔ جو لوگ نوازشریف کے بغیر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لڑ کر دیکھ لیں، کس نے منع کیا ہے۔ مقبولیت قیادت تیز آندھی‘ موسلادھار بارش اور سیلابی ریلے کی طرح ہوتی ہے‘ خس وخاشاک کو بہا کر لے جاتی ہے۔