دونوں ملک یکایک اچھے بچے کیسے بن گئے، یہ ملین ڈالر سوال ہر ایک زبان پر ہے۔
بھارت تو پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لئے تیار نہیں تھا، خورشید قصوری اپنی ایک بے ضرر سی کتاب لے کر ممبئی گئے تو ان کی تقریب کے میزبان کا منہ کالا کر دیا گیا، استاد غلام علی کو روک دیا گیا کہ وہ لکھنو کا رخ نہ کریں، مگر یہ کیا کہ پیرس میں نواز شریف اور مودی ایسے ملے جیسے بچپن کے دوست رازو نیاز کر ر ہے ہوں، اسی پر موقوف نہیں، خبر یہ بھی آئی کہ دونوں نے نیپال میں بھی خفیہ ملاقات کی تھی، یہ سب کچھ تو صیغہ راز میں تھا مگر بنکاک کے شعلے تو سب نے دیکھے کہ کس طرح دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروںنے ملاقات کر ڈالی۔اور اب ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں وہ سشما سوراج اسلام آباد آن پہنچیں جو اپنی شعلہ فشانی کے لئے شہرت رکھتی ہیں۔انہوں نے ہمارے قومی سلامتی کے اس مشیر کی کھلے عام تعریف کی جن کے سر پہ بلوچستان کے کامیاب آپریشن کی کلغی سجی ہے۔اور انہیں اس کامیابی کے صلے میں چند ثانئے ضائع کئے بغیر قومی سلامتی کا مشیر بنا دیا گیا۔بلوچستان میں انہوں نے بھارتی را کو نتھ ڈال کے رکھ دی تھی۔
اس سے پہلے دو اقعات اور بھی ہوئے جو ابھی تک پردہ اسرار میں لپٹے ہوئے ہیں، ایک تو وزیر اعظم امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے جس کی کامیابی یا ناکامی کی بھنک تک نہیں لگنے دی گئی، دوسرے آرمی چیف نے بھی پانچ روز کا امریکی دورہ کیا، ان کی فوجی اور سیاسی قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں ، صرف صدر امریکہ سے نہیںہوئی جو ملک میں نہیں تھے، مگر کوئی نہیں جانتا کہ اس اعلی سطحی دورے کا حاصل کیا تھا۔ سوائے ا س کے کہ ودطرفہ تبادلہ خیال ہوا، محض اس مقصد کے لئے تو آرمی چیف کوامریکہ جانے یا بلانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ کام اسلام ا ٓباد میں متعین امریکی سفارتی عملے کے ذریعے بھی آسانی سے ہو سکتا تھا۔
مگر اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ انہی دوروں میں طے ہوا ہو گا، یا تو وزیر اعظم کے ساتھ یا آرمی چیف کے ساتھ یا دونوں کے ساتھ، جب میڈیا کے پاس معلومات نہ ہوں تو وہ ٹیوے ہی لگا سکتا ہے۔مہذب ملکوں میںبہر حال ایسا نہیں ہوتا، میڈیا سے کچھ بھی نہیں چھپایا جا تا، امریکی وزارت خارجہ کا ترجمان روزانہ ہر مسئلے پر بریفنگ دیتا ہے، میں بھی ایسی ہی ایک بریفنگ میں بطور خاموش مبصر شرکت کر چکا ہوں،ا س بریفنگ کا ماحول انتہائی دوستانہ ہوتا ہے، یوں لگتا ہے، جیسے گپ شپ ہو رہی ہو مگر اشاروں کنایوں میں بڑی گہری باتیں کر دی جاتی ہیں۔پاکستانی میڈیا اس قدر خوش قسمت نہیں کہ ان کے حکمران کسی بھی مسئلے پر میڈیا کو اعتماد میں لیں۔سو جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں وزیرا عظم اور آرمی چیف کے سوا کوئی آگاہ نہیں، بس ہم بیس کروڑ پاکستانی بے بس ، بے زبان ،بے حس ، گونگوں، بہروں کی طرح اپنی تقدیر کے فیصلے ہوتے دیکھنے پر مجبور ہیں۔
پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی کو نہ بھارت ختم کرنے کو تیار ہے، نہ پاکستان۔خورشید قصوری یا سیفماکی خواہشات اپنی جگہ پر مگر وہ غیر متعلق ہیں، کوئی مانے یا نہ مانے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کا جھگڑا معمول کے تعلقات کی راہ میںحائل ہے، اس مسئلے پر تین چار جنگیں ہو چکی ہیں، اور آئندہ بھی یہی مسئلہ کسی غیر متوقع جنگ کا باعث بن سکتا ہے،ا س کا خدشہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک مشیر نے آج ہی ظاہر کیا ہے۔ممبئی کا قضیہ اسی کشمیر اشو کا شاخسانہ ہے جس کی آڑ میں پاکستان کی ایک جہادی تنظیم کا نمدا کسا جا رہا ہے اور پاکستانی میڈیا کو اس تنظیم کی فلاحی سرگرمیوں کی تشہیر سے بھی روک دیا گیا ہے، یہ تو سراسر بھارت کو خوش کرنے کے مترادف ہے۔
کشمیر کا مسئلہ اگرا ٓج حل ہو جائے تو کسی پاکستانی کو بھارت سے دوستی پر کوئی اعتراض نہیںہو گا۔بھارت یہ تجربہ کر کے دیکھ لے، کہنے کو تو سشما سوراج نے کہہ دیا کہ جامع مذاکرات کو بحال کیا جارہا ہے، ان مذاکرات میں کئی درجن مسائل شامل ہیں جن میں کشمیر کا مسئلہ بھی موجود ہے ، مگر یاد رکھئے کہ بھارت جونہی مذاکرات کی میز پر بیٹھے گا تو اس کا پہلا اصرار یہ ہو گا کہ کشمیر تو ہمارا اٹوٹ انگ ہے، باقی معاملات پر غور کر لیتے ہیں، یقین کیجئے باقی معاملات میں لمبے چوڑے جھگڑے والی کوئی بات ہی نہیں، سر کریک میں صرف حدبندی کرنے کا کام باقی ہے، سیاچین پر جہاںکوئی بیٹھا ہے، وہاں سے ایک انچ آگے پیچھے کوئی نہیں ہٹے گا،کشمیر کے دریائوں پر بھارت جو بند بنا چکا ، وہ اب ڈائنا مائٹ نہیں کئے جاسکتے، پاکستان کو پانی کی کمی کے عذاب کو سہنا ہو گا۔اور کیا مسئلہ ہے، آنے جانے کی سہولت، اس کے لئے دونوں ملک تیار ہو جائیں گے، پہلے سارک ویزے کا چور رستہ کھول لیا گیا ہے۔مگر آخر میں وہی رکاوٹ جو روز اول سے درپیش ہے، آڑے آئے گی اور بر صغیر اس کی وجہ سے کسی بھی وقت جہنم کی نذر ہو سکتا ہے۔
یہی وہ خطرہ ہے جو امریکہ ا ور اہل مغرب کو تشویش میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔اکہتر کی جنگ میں بقول کسنجر امریکہ نے ایٹمی حملے کی دھمکی دے کر بھارت کو مغربی پاکستان کو روندنے سے روکا تھا۔دو ہزار دو میںبھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو بھارتی فوج بسرعت تمام پاکستانی سرحدوں پر مورچہ بندہو گئی۔عالمی میڈیا کے مطابق ایٹمی جنگ کے خدشے کے پیش نظر مشرق بعید کے ہسپتالوںمیں ایمر جنسی نافذ کردی گئی تھی تاکہ بر صغیر کے بچے کھچے افراد کو فوری طبی امداد دی جا سکے۔ ممبئی سانحے کے بعد بھارت سرجیکل اسٹرئیک کے لئے تلا ہوا تھا، اس کے عزائم میں کو ن رکاوٹ بنا، پس منظر کے کرداروں کو میںنہیں جانتا مگر پاک فضائیہ کے دلیر ہوا بازوںنے کئی روز تک ہر لمحے سرحدوں پر ،پروازیں جاری رکھیں اور یہ جہاز سیرو تفریح کی غرض سے اسکریمبل نہیں کئے گئے تھے، یہ مناسب گولہ بارود سے لیس تھے۔ بھارتی فضائیہ کو ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
میں یہی کہوں گا کہ ماضی میں معجزوںنے بر صغیر کے سر پہ امن کا سایہ قائم رکھا، مگر ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا یہ معجزے آئندہ بھی رونما ہوتے رہیں گے اور کیا آج کل کی آنیاں جانیاں ایساہی کوئی معجزہ ہیں۔میرے پا س اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ شاید وزیر اعظم یا آرمی چیف اس پر روشنی ڈال سکیں۔انہیں بہر حال عوام کو اعتماد میںلینا چاہئے، وہ بیس کروڑ پاکستانی عوام ہی کے نہیں، بر صغیر کی ڈیڑھ ارب آبادی کے مستقبل کے فیصلے کر رہے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024