سشما سوراج ضرورت سے زیادہ چالاک خاتون ثابت ہوئیں، لگ ایسے رہا ہے جیسے وہ پاکستانی قیادت کو ”ماموں“ بنا گئیں، آخر کار انہیں وسیع تجربہ بھی تو ہے کہ کس کو ناکوں چنے چبوانے ہے اور کس کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنی ہے۔ ویسے یہ حیرانگی کی بات ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اور انکی بیٹی نے انہیں گھنٹوں وقت دیا اور اس دوران وزیر اعظم کے چہرے کی رونقیں دیدنی تھیں۔ اور تو اور جب سرتاج عزیز نے سشما سوراج کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئے ”ویلکم“ کیا تو مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب ہم ”کیکلی“ ڈالا کرتے تھے۔! ویسے میں سشما سوراج کو داد دیتا ہوں کہ اس نے کس طرح ان پاکستانی رہنماﺅں سے صرف اپنے مطلب کی بات کی۔ نہ کہیں کشمیر نظر آیا، نہ کہیں پانی کا مسئلہ نظر آیا اور نہ ہی کہیں پاک بھارت کرکٹ سریز کی بات ہوئی۔ کرکٹ سے یاد آیا۔ سشما سوراج کے ایجنڈے میں سرے سے ہی کرکٹ سریز نہیں تھی وہ صرف اپنا ایجنڈا لے کر آئی تھیں، پاکستانی قیادت کی بات سننے نہیں آئی تھی۔اس نے اپنا وہی پرانا راگ الاپا کہ پاکستان دہشت گردی کا خاتمہ کرے اور ممبئی حملوں کے ذمہ داران کےخلاف کارروائی کرے وغیرہ۔ کرکٹ کے حوالے سے شوشے تو میڈیا میں چھوڑے گئے تھے۔ لیکن میرے خیال میں شاید اب پھر شہریار خان بھارت جائینگے اور وہاں سے رسوائی کا تحفہ لائیں گے اور مجھے یقین ہے کہ وہ پھر باز نہیں آئینگے۔۔۔ بقول غالب
کعبے کس منہ سے جاو¿ گے، غالب؟
شرم تم کو مگر نہیں آتی
گزشتہ دو ماہ سے بھارتیہ جنتاپارٹی کی دودھ پیتی بیٹی شیوسینا نے جو سلوک پہلے غلام علی اور پھر خورشید قصوری کے ساتھ کیا، وہ ابھی تک پاکستانی عوام کے حافظے میں موجود ہے۔ بھارت میں گائے کے ذبیحہ اور گوشت کھانے کے جرم کے بہانے مسلمانوں کےخلاف مہم، گویا پاکستان کےخلاف مہم تھی کیونکہ شیوسینا اور بی جے پی پاکستان کےخلاف فوجی کارروائی کا تصور نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ پاکستان کے جوہری ٹیکٹیکل ہتھیار، بھارت کو یہ یاد دلانے کیلئے کافی ہیں کہ اب پاکستان کیخلاف فوجی کارروائی کی خواہش کی تسکین ، محض بھارتی مسلمانوں کیخلاف نفرت وحقارت پر مبنی رویے کے تسلسل ہی کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ جب 1965ءکی جنگ بندی کیلئے کوششیںہو رہی تھیں تو روسی وزیر خارجہ کوسیگن نے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لعل بہادر شاستری کو تاشقند میں مذاکرات کرنے کی دعوت دی جسکے نتیجے میں دونوںممالک کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ اس وقت بھارت جنگ بندی کیلئے اس قدر بے تاب و بے چین تھا کہ جیسے ہی شاستری نے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے ، ان پر شادی مرگ جیسی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ پرلوک سدھار گئے۔ پاکستانی عوام کو بھارتی وزیراعظم واجپائی کی آمد بھی لازماً یاد ہوگی جب وہ بس کے ذریعے واہگہ کے راستے پاکستان آئے اور مینارپاکستان پرحاضری دی۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی بھی بھارتی راہنما نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ دونوں وزرائے اعظم ، نوازشریف اور واجپائی کی خوشی اس وقت کرکری ہو گئی جب جماعت اسلامی نے بھارتی وزیراع©ظم کے دورے کےخلاف مظاہرے کیے اور کارگل کے ”ہیرو“کمانڈو، جنرل پرویزمشرف نے اپنی پاکستانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے واجپائی سے مصافحہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کاش وہ بھی مصافحہ کر لیتے اور سمجھتے کہ تمام بھارت کا ہاتھ انکے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ پھر ایک زمانہ وہ بھی آیا جب کمانڈوجنرل پرویزمشرف ، بھارت کے ساتھ بات چیت کیلئے گئے اور آخری لمحہ تک یہی سمجھتے رہے کہ بھارتی انکی سفارتکاری کے جال میں پھنس چکے ہیں اور دونوںممالک کے درمیان معاہدہ لمحوں کی دوری پر ہے۔ اس دوران انہوں نے آگرہ کا دورہ بھی کیا اور تاج محل کے سامنے اپنی اہلیہ کی معیت میں تصویر بھی بنوائی۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ انکے بھارت کے دورے کا حاصل محض یہی تصویر تھی۔ جنرل پرویزمشرف بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ بھارت کے ساتھ معاہدے کے ذریعے وہ تمام بھارت کا ہاتھ تھامنے میں کامیاب ہو جائینگے لیکن یہ ہاتھ، انکے ہاتھ نہ آیا اور وہ خالی ہاتھ تاج محل کے سامنے اپنی اہلیہ کے ساتھ تصویر کے ساتھ واپس پاکستان آ گئے۔ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف یوں بھاگم بھاگ گئے جیسے پورا بھارت، اپنا ہاتھ انکے ہاتھ میں دینے کیلئے تیار ہے۔ وزیراعظیم ، مودی کی حلف برداری کی تقریب کے بعد کف افسوس سے ہاتھ ملتے واپس آ گئے اور شاید سوچتے ہونگے کہ انکے ہاتھ کی کرامت کسی کام نہ آئی۔
یہ شاید مغل دور کی بات ہے کہ ہندو مرہٹوں کا ایک سردا رشیواجی مسلمانوں سے جنگ آزمائی کے بعدجب کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا تو اس نے ہندو فطرت کے مطابق چال چلی۔ا س نے مسلمان جرنیل افضل خان کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تاکہ صلح کے متعلق بات چیت کی جا سکے۔ یہ حقیقت تاریخ میں محفوظ ہے کہ جیسے ہی افضل خان ،شیواجی سے معانقہ کرنے لگا،اس نے پیچھے سے خنجر کا وار کر کے افضل خان کو اپنے ہاتھ دکھا دئیے۔ برصغیر کے دو حصوں میں تقسیم کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت وجود میں آئے۔اس وقت پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے جب بھارت ، پاکستان کیلئے کچھ مسائل پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس وقت لیاقت علی نے اپنا ہاتھ تو نہیں بلکہ اپنا مکہ لہرایا اور بھارت سمجھ گیا کہ و ہ اس مکے کی تاب نہیں لا سکتا۔ لیکن لیاقت علی کو بھی مکہ لہرانے کی پاداش میں اپنی موت قبول کرنی پڑی۔ بھٹوصاحب اور اندراگاندھی کے درمیان ملاقات کے نتیجے میں شملہ معاہدہ وجود میں آیا۔ اس موقع پر بھٹوصاحب نے اندراگاندھی کے ساتھ ہاتھ تو نہیں ملائے لیکن انہیں اپنے ہاتھ ضرور دکھا دیے اور پاکستانی جنگی قیدیوں کو رہا کر انے میں کامیاب ہو گئے۔ من موہن سنگھ ایک ایسے بھارتی وزیراعظم تھے جو اپنی خواہش کے باوجود سیاسی مجبوریوں کے باعث پاکستان کا دورہ نہ کر سکے۔ انکے دور میں بھی ضرورت تھی کہ دونوںممالک، پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کےساتھ ہاتھ ملاتے لیکن من موہن سنگھ شاید اس خوف کے باعث پاکستان نہ آئے کہ شاید انکے ساتھ ہاتھ نہ ہو جائے۔
سابق وزیراعظم گیلانی بھی بھارت گئے تھے اور پاکستانی عوام کو ہاتھ دکھاتے ہوئے ورلڈ کپ تحفے میں بھارت کو پیش کر دیا تھا۔ اسکا ثبوت یہ ہے کہ جب شکست خوردہ پاکستانی کرکٹ ٹیم واپس اپنے وطن پہنچی تو اسکا شاندار استقبال کیا گیا حالانکہ اس سے پہلے جوبھی ٹیم بھارت سے ہار کر آتی تھی، عوام سے منہ چھپاتی پھرتی تھی۔
نواز شریف کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ انہیں آئندہ کا لائحہ عمل کیا بنانا ہے؟ کیوں کہ اتنی زیادہ جگ ہنسائی، آﺅ بھگت اور ظہرانے و استقبالیے دئیے جانے کے بعد بھی بھارتی وزیر خارجہ ٹس سے مس نہیں ہوئی، اور انہوں نے کہا کہ ہمارا واحد ایجنڈا تجارت ہے اور مہربانی فرما کر سڑکیں کھول دیں۔ خاص طور پر کلکتہ سے افغانستان تک کے راستے کی ہر دیوار کو گرا دیں اور میرے خیال میں اس طرح کی تجارتیں جو لوگ کے جذبات کیساتھ کھلواڑ کر کے کی جائیں وہ ہمیشہ ناکام ہوتی ہیں اور بہت بڑی بربادی کی داستان بنتی ہیں لہٰذا آپ امریکا کی ایما پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کو نہ بڑھائیں بلکہ برابری کی سطح پر جامع مذاکرات کریں۔۔۔ وزیراعظم صاحب آپ مستقبل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایران، روس، چین، افغانستان وغیرہ کے ساتھ تعلقات بڑھائیں۔ کرکٹ کی بھیک مانگنے والے بھارت میں بھی ذلیل و رسواءہوئے اور پاکستان میں بھی۔ یا سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ بھارت نے ہمیشہ مذاکرات میں پاکستان کو لولی پاپ دے کر اپنی باتیں منوائی ہیں۔ اس لیے نوازشریف سے گزارش ہے کہ قوم کے جذبات سے کھیلنے کی بجائے سمجھداری سے کام لیں اور صرف بھارت کے مکروہ چہرے کو پہچان لیں یا کشمیریوں کے خون کا رنگ ہی دیکھ لیں۔ سب کچھ آشکار ہو جائےگا۔