قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’چوہے بلی ‘‘ کا کھیل جاری ہے ،حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات کار میں کشیدگی حکومت کیلئے شرمندگی کا باعث بن رہی ہے، کبھی کورم کی نشاندہی پر حکومتی ارکان کی دوڑیں لگا دی جاتی ہیں کبھی ایوان کی کارروائی کا ’’بائیکاٹ‘‘ کر کے حکومت کو پریشان کرنے کا ساماں پیدا کر دیتی ہے ،جمعرات کو بھی قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی جمشید دستی نے کورم کی نشاندہی کر دی ۔ ایوان میں کورم پورا نہ ہونے پر سپیکر سردار ایاز کو کاروائی کو روکنا پڑا ۔ کورم پورا ہونے پر دوبارہ اجلاس شروع ہوا ،کورم کی نشاندہی پر سپیکر سردار ایاز صادق گنتی کروانے پر مجبور ہو گئے، کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کے موخر ہونے پر ارکان اسمبلی ایوان میں ٹولیوں کی شکل میں خوش گپیاں لگاتے رہے ،وفاقی وزراء پرویز رشید‘ چوہدری برجیس طاہر‘ پیر امین الحسنات‘ انوشہ رحمن‘ خواجہ سعد رفیق اور کامران مائیکل باہم خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ 9 وفاقی وزرائایوان میں موجود ہیں اور وزیر مملکت برائے آئی ٹی انوشہ رحمن نے کہا کہ 9نہیں 10وزراء موجود ہیں، ایک وزیر سپیکر چیمبر میں موجود ہے ،ایوان سے باہر موجود حکومتی ارکان ہانپتے کانپتے ایوان میں پہنچے توکچھ دیر بعد اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی، سپیکر نے دوبارہ گنتی کا حکم دیا۔ ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری ہونے پر دوبارہ کارروائی شروع کی، ایاز صادق نے کہا کہ وقفہ سوالات شروع ہوچکا ہے اور یہ اپوزیشن کا ہی ہوتا ہے۔ جمشید دستی نے کہا کہ قواعد کورم کے بغیر اجلاس اجازت نہیں دیتے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب پر بحث کے آغاز کو ایوان میں وزیراعظم کی موجودگی سے مشروط کر کے وزیر اعظم کو ایوان میں آنے پر مجبور کر دیا ہے ، سید خورشید شاہ نے صدارتی خطاب پر بحث کو وزیر اعظم کی موجودگی سے مشروط کر کے سیاسی پوائنٹ سکورننگ کی، وزیر اعظم کی ایوان میں عدم موجودگی کا کوئی جواز نہیں تھا ،بے چارے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب کا بس وزراء اور حکومتی ارکان پر نہیں چلتا وہ وزیر اعظم کو کس طرح ایوان میں حاضر ہونے پر مجبور کر سکتے ہیں، اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کا پورا دن کار سرکار میں انتہائی مصروف گذرتا ہے لیکن سید یوسف رضا گیلانی پارلیمنٹ میں موجودگی بارے ایسی مثال قائم کر چکے ہیں جن پر ان کے بعد آنے والوں کے لئے عمل کرنا مشکل ہے ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی نے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو پار لیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب پر بحث کا آغاز کرنے کی دعوت دی تو خورشید شاہ نے کہا کہ30,25ارکان کے سامنے خطاب کرنے کا کیا فائدہ، جس کے بعد قائد حب اختلاف ایوان سے اٹھ کر چلے گئے ڈپٹی سپیکر نے وفاقی وزیرموسمی تبدیلی زاہد حامد سے کہا کہ وہ قائد حزب اختلاف کے تحفظات حکومت اور قائد ایوان تک پہنچائیں،زاہد حامد نے کہا کہ’’ ایسی کوئی روایت موجود نہیں کہ صدارتی خطاب پر بحث کے آغاز کے وقت وزیراعظم لازمی طورپر ایوان میں موجود ہوں یہ محض صدارتی خطاب پر بحث شروع نہ کرانے کیلئے ایک بہانہ ہے‘‘ جس پر پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے زاہد حامد کو آڑے ہاتھوں لے لیا تاہم ڈپٹی سپیکر نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا اور زاہد حامد کے ریمارکس حذف کرائے بغیر ایوان کی کارروائی جاری رکھی ،جمعرات کو قومی اسمبلی میں بچوں سے بد سلوکی کے مجرموں کی عمر کی بالائی حد 14 سال مقرر کرنے کا بل منظور کرلیا گیا‘ اپوزیشن نے بل کی مخالفت کی ‘ وفاقی وزیر قانون و انصاف پرویز رشید نے کہا قانون سازی میں عالمی قوانین کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے‘ مجلس قائمہ نے بھی اس قانون سازی کو منظور کیا ہے جس میں اپوزیشن کی بھی نمائندگی موجود تھی‘ اگر اپوزیشن کو اس قانون میں ترامیم کرانی ہے تو سینٹ میں اس میں ترامیم پر بات ہوسکتی ہے۔ اجلاس میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعظم یا مشیرخارجہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے فیصلوں اور پاک بھارت مشترکہ اعلامیے کے بارے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میںلیں۔کشمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ کے بارے میں پاکستانی موقف کو اعلامیے میں شامل نہ کرنا حکومت کی نااہلی ہے ،صوبائی رابطہ کے وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ارکان کے تحفظات سے حکومت آگاہ کریں گے، 20دسمبر کو آئی پی سی میں صوبوں کے مابین متنازع ایشوز پر اتفاق رائے کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا ، جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے مسئلہ کشمیر پر اظہار خیال کیا ، سانحہ پشاور کو بچوں کے تحفظ کے قومی دن کے طور پر منانے کے لیے قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ قرارداد جمع کروا دی ہے ان جماعتوں میں پی پی پی ، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی ، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024