نوائے وقت کے علاوہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ او ر کارکنان تحریک پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارموں سے کیا جانے والا ان کا کام بھی بے مثل اور انکے سچے جذبوں کا عکاس ہے۔ یہ بھی انکے سب قریبی لوگوں کے سامنے ہے کہ انہوں نے سچی بات بلا جھجک نوائے وقت میں لکھنے کے علاوہ بڑے بڑے جابر حکمرانوں کے سامنے بھی کسی ڈریا خوف کے بغیر کہی ہے۔ اس کیلئے انہیں ہمیشہ اشتہارات کی بندش وغیرہ کی صورت میں بہت سی مالی قربانیاں بھی دینا پڑیں ،لیکن انہوں نے ایسی چیزوں کی پرواہ نہ کی۔ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی جناب مجید نظامی نے ہر صورت میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ وہ ذاتی طور پر ایک بہت اچھے صحافی ہی نہیں، بہت اچھے منتظم بھی ہیں۔چوراسی برس کی عمر میں صحافت کی ستر برس سے زیادہ عرصے تک خدمت کرنے کے بعد وہ آج بھی اپنے اردو اور انگریزی اخبارات کے علاوہ وقت ٹیلی وژن کی انتظامی ذمہ داریوں کا زیادہ تر بوجھ خود ہی اٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ بظاہر روکھے پھیکے اور سخت مزاج نظر آنے والے انسان ہیں، لیکن اندر سے انتہائی نرم ، انسان دوست اور دوستوں کی محفل میں خوش باش طبیعت کے مالک ہیں۔ اپنے نظریات اور اصولوں پر سختی سے کاربند ہونے کے باوجود وہ اپنے رویوں میں جمہوریت پر اسکی ا صل روح کیمطابق کارفرما ہیں، ان کے اخبارات میں تمام پارٹیوں کے بیانات اور تمام کی حمایت میں مضامین اور کالم شائع ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نظریات کیخلاف تحریریں بھی تواتر کیساتھ اپنے اخبارات میں شائع کی ہیںاور ایک حقیقی جمہوری فکر کے مالک اور روشن خیال انسان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ پاکستان کے آج تک کے حالا ت ہمارے سامنے ہیں۔ جاگیر دار، سیاستدان اور کرپٹ بیوروکریسی کی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہم ہر وقت کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے جاگیرداروں کو ہم دیکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی سپرمیسی کی رٹ لگاتے ہوئے کس ڈھٹائی سے آئین کی بالا دستی کو پیچھے دھکیل کر عدالت عظمیٰ کے فیصلوں سے انحراف کی جرات کرتے ہیں۔ کس طرح خود کو برطرف کئے جانیوالے جنرل اقتدار پر پنجے جماتے اور برسوں آئین و قانون کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ سارے حالات جن کا مجید نظامی نے سامنا کیا غیر ملکی جابر حکمرانوں کے ظلم سے کم نہیں تھے۔ مجید نظامی کا ہماری صحافت سے طویل عرصے تک وابستہ رہنا، خدائے برتر کی ہم پر خاص عنایت ہے۔ انہی کے دم قدم سے ہمارے صحافی ظالم حکمرانوں کے سامنے بلا خوف و خطر کلمہ حق کہنے کا حوصلہ پاتے رہے۔ اس سالار کی قیادت میں صحافت کا قافلہ آگے بڑھتا اور معرکے سر کرتا رہا، حتی کہ اسے یہ قوت اور آزادی حاصل ہوگئی، جس پر آج صحافت سے وابستہ ہر فرد نازاں ہے۔صحافت میں ہمیں سرسید احمد خان، مولانامحمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان کا تسلسل مجید نظامی کی صورت میں نصیب ہے، جس وجہ سے ہم آج ان تمام ہستیوں کی طاقت اور قابلیت ، خلوص اور جذبے اپنی صفوں میں موجود پاتے ہیں۔ مجید نظامی ہماری صحافت اور قومی زندگی کے ایک روشن باب کاعنوان ہے۔ جس کے تحت قومی صحافت کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ کج رو اور کم ظرف سیاستدانوں سے صحافت کی پنجہ آزمائی کا ذکر بھی آتا ہے، ہمیں یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ کس طرح علامہ اقبال اور قائداعظم کا ایک مخلص سپاہی اپنے اخلاص کی بناءپر ملک میں نظریہ پاکستان کی تحریک لے کر اٹھا اورمنافقت اور دغا کرنے والی الحادی قوتوں کے سامنے ایک دیوار بن کر کھڑا ہوگیا۔ کس طرح اس تنہا شخص کے جلائے ہوئے دیے کی روشنی نے پھیلتے پھیلتے پورے ارض پاک پر اجالا کر دیا اور کس طرح ہماری نئی نسل اس سے روشنی پاکر دنیا کی قوموں میں اپنے وطن کو قابل رشک بنانے کے لئے سرگرم ہوگئی۔ وہ وقت دور نہیں، جب ہماری قومی تاریخ میں مجید نظامی کے عنوان سے لکھے گئے باب کو سب سے زیادہ چاہت اور گہرائی سے پڑھا جائیگا۔ ایک ایسا شخص جو ناامیدی کے اندھیروں میں امید کے اجالے کر گیا۔ جس کے عزم اور استقلال میں زمانے بھر کی طاغوتی قوتیں مل کر بھی کمزوری پیدا نہ کرسکیں۔ ہماری صحافت اور ہماری تاریخ کا تسلسل مجید نظامی۔۔!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38