ارشد ندیم پر انعامات کی برسات۔کروڑوں روپے نقد، سونے کا تاج، پلاٹ،میاں چنوں ، کراچی،سکھر سمیت کئی شہروں میں کھلیوں کی اکیڈمیاں بنیں گی۔
سچ کہتے ہیں جیتنے والے کے ساتھ سب شامل باجہ ہوتے ہیں۔ہارنے والے کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا۔چلیں شکر ہے۔ ارشد ندیم کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں کو کرکٹ کے علاوہ کسی اور کھیل کا خیال تو آیا۔ اس وقت مارشل آرٹ ، باکسنگ والی بال، ویٹ لفٹنگ اور سکوائش کے عالمی مقابلوں میں ہمارے کھلاڑی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ابھی ان کو وہ مقام نہیں دے رہے جس کے وہ حقدار ہیں اور پھر روتے پھرتے ہیں کہ ہمارے ہاں کھیلیں تنزلی کا شکار ہیں۔ ہمارے یہ نوجوان جس محنت اور لگن سے تنگ دستی کے باجود اپنا شوق پورا کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ محکمہ کھیل ان سے بے نیاز ہے۔ وہاں ایک مخصوص خوشامدی گروپ چھایا رہتا ہے جو پسند ناپسند کو اہمیت دیتا ہے، ٹیلنٹ کو نہیں۔ اب سارے کھلاڑی اپنے خرچے پر بیرون ملک تو نہیں جا سکتے۔ اس بار دیکھ لیں گولڈ میڈلسٹ تن ساز طلحہ بٹ بھی گھر بیٹھے ہیں کیونکہ عالمی سطح کے مقابلے اور اولمپکس میں شرکت کیلئے وہ خود تو جانے سے رہے۔ جبکہ بیرون ملک دوروں میں درجنوں آفیشلز سیر سپاٹے کرتے ہیں۔ اور بہت سے کھلاڑی بے چارے محنت مزدوری کر کے اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ اب شکر ہے ارشد ندیم کی شاندار کامیابی پر حکومت سندھ ، حکومت پنجاب اور صوبائی گورنروں کے علاوہ وفاقی حکومت اور بہت سے نجی اداروں نے ان پر جس طرح انعامات کی بارش کر دی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ انہوں نے جس طرح اپنے کھیل کو پروان چڑھایا وہ سب کے علم میں ہے۔ چلیں اب ان کی وجہ سے شاید حکومت باقی کھیلوں پر بھی توجہ دے گی اور نیا ٹیلنٹ سامنے آ کر ملک کا نام روشن کرے گا۔
جماعت اسلامی سے ہاتھ ہو گیا، معاہدے کے باوجود بجلی پھر مہنگی ہو گئی۔
جماعت اسلامی کے دھرنے کے آخری ایام میں رہنماوں کی تقاریر اور دھرنے کے شرکاءکا موڈ دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اکتاہٹ کا شکار ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے اور انہیں یہاں سے اٹھائے۔ حکومت والے بھی کائیاں نکلے آخری چند روز حکومتی ٹیم نے دھرنا ٹیم کو مذاکرات کی ڈور میں الجھائے رکھا۔
کبھی صبح کبھی شام کبھی رات کو یہ چوہےبلی کا کھیل جسے عام زبان میں ٹوم اینڈ جیری شو بھی کہہ سکتے ہیں چلتا رہا اور بالآخر گزشتہ روز جب دھرنے کے شرکاءنے مری روڈ کی طرف سے آگے مارچ کا فیصلہ کیا تو راتوں رات دیکھ لیں کیسی پھرتی سے میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں فریقین میں باعزت معاہدہ ہو گیا کہ حکومت بجلی کی قیمت میں کمی لائے گی اور دھرنا ختم کر دیا جائے گا۔ جسے کہا گیا ہے موخرکر دیا گیا ہے۔ ابھی معاہدے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی یعنی قبرکی مٹی بھی نہیں سوکھی تھی کہ حکومت نے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر یکدم ڈھائی روپے بجلی کی قیمت میں اضافہ کر کے اس باعزت معاہدے کو بے عزتی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ جماعت اسلامی نے موسم کو خاطر میں لائے بغیر دھرنے کا اعلان کر کے اپنے کارکنوں اور عوام کو آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ گرمی ، حبس اور بارش نے سارا پلان چوپٹ کر دیا۔ اوپر سے روکھے سوکھے بیانات نے بھی لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کی۔ ہاں اگر دوسروں کے دھرنوں کی طرح جماعت کے دھرنے میں رات گئے رقص و موسیقی کا تڑکا لگایا جاتا۔ جو ممکن نہیں تھا، تو کم از کم قوالی نائٹ کا ہی اہتمام ہوتا تو شاید بے رنگ محفل چند دن اور چل جاتی۔ پہلے دھرنوں کی کامیابی میں اسی محفل موسیقی کا بڑا ہاتھ تھا۔
مولانا فضل الرحمن کی پارلیمنٹ میں جلوہ نمائی۔
نجانے کیوں لگتا ہے جس طرح مچھلی پتھر چاٹ کر واپس آتی ہے۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کو سعی لاحاصل دیکھ کر واپس پارلیمنٹ کا رخ کر رہی ہیں۔ جب اپوزیشن کے سفیر محمود خان اچکزئی جن کے چادر اوڑھنے کے انداز کا کپتان جلسوں میں سر پر ڈوپٹہ رکھ کر تمسخر اڑاتے تھے وہ بھی تو ہر اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔ خود پی ٹی آئی والے بھی جعلی اسمبلی کہنے کے باوجود اس جعلی پارلیمنٹ میں دھڑلے سے شریک ہو کر دھواں دار تقریریں کرتے ہیں۔ سپیکر کا گھیراﺅ کرتے ہیں کارروائی کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑاتے ہیں۔ ویسے بھی مچھلی زیادہ عرصہ پانی سے دور نہیں رہ سکتی۔ مولانا فضل الرحمن بھی آخر سیاستدان ہیں وہ کب پارلیمنٹ سے دور رہ پاتے۔ لہٰذا گزشتہ روز انہیں پارلیمنٹ میں اپنے دیرینہ رفیق عبدالغفور حیدری کے ساتھ ہم رنگ پگڑی و لباس پہنا دیکھ بہت سے چہرے کھل اٹھے ہوں گے جن میں آصف علی زرداری بھی شامل ہیں کیونکہ مولانا بھی ان کے دام سیاست کے اسیر رہے ہیں اور صدر مملکت آج بھی ان کی دلداریاں کرتے ہیں تاکہ وہ مان جائیں اور حکومت کو آرام سے چلنے دیں۔ بے شک پہلے کی طرح جو وزارت اور چیئرمینی لینی ہے لے لیں۔ حکومت تو پہلے سے ان کے سواگت کے لیے تیار بیٹھی ہے۔
20 سالہ پیراک کو خوبصورتی کی وجہ سے اولمپک ویلج سے نکالنا پڑا۔
سچ کہتے ہیں کسی بھی چیز کی زیادتی خطرناک ہوتی ہے خواہ شکل و صورت ہو یا عادات و اطوار ، یا دولت کی زیادتی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان سب میں حسن کی زیادتی تو زیادہ ہی خطرناک ہوتی ہے۔ اس حسن فتنہ گر نے تاریخ عالم میں دیکھ لیں کیسے کیسے انقاب برپا کئے۔ سلطنتوں کا تختہ الٹا۔ بڑے بڑے فلسفیوں، داناﺅں کو اپنے حسن و ادا تلے روندا۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور نجانے کب تک چلتا رہے گا۔ گزشتہ روز پیرس اولمپکس میں بھی بقول اقبال
مقالات فلاطون نہ لکھ سکی لیکن
اس کے شعلے سے ٹوٹا شرر افلاطون
والی صورتحال اس وقت سامنے آئی جب پیرا گو¿ے کی حکومت نے اپنی سوئمنگ کی کھلاڑی کو واپس وطن طلب کر لیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کھلاڑی بہت خوبصورت ہے جس کے حسن کے جلوﺅں کی تاب سے باقی سب کو تو چھوڑیں خود اس کے ملک کے کھلاڑیوں کی بھی توجہ کھیل سے ہٹ رہی ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے
سوچئے تو حسن کافر کچھ نہیں
دیکھئے تو دیکھتے رہ جائیے
سو یہ قتالہ عالم حسن فتنہ گر کے جلوﺅں کی تاب لانا کسی کے بس میں نہیں تھا تو اسے واپس بلا لیا گیا۔ واقعی اس حوالے سے جوش نے اپنی نظم فتنہ خانقاہ میں کیا خوب کہا تھا۔
دم بھر میں پارسائی کی بستی اجڑ گئی
جس نے نظر اٹھائی نظر رخ پہ گڑ گئی
گویا ہر اک نگاہ میں زنجیر پڑ گئی
طوفان آب و و رنگ میں فرہاد کھو گئے
سارے کبوتران حرم ذبح ہو گئے
ٹھنڈے تھے لاکھ حسن کی گرمی سے جل گئے
کرنیں پڑیں تو برف کے تودے پگھل گئے
جناب اب پیراگوئے کی یہ 20 سالہ حسینہ پیراکی مقابلے کے سیمی فائنل سے قبل ہی وطن واپس روانہ ہو گئی۔ شکر ہے اس طرح اولمپکس ویلج کا”پاکیزہ“ ماحول تباہ ہونے سے بچ گیا ، ورنہ نجانے کیا ہوتا۔