برین ڈرین: کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں۔۔۔

انگریزی اصطلاح ’برین ڈرین (Brain Drain)‘ سے مراد ہے ایک ملک سے تربیت یافتہ، باصلاحیت یا لائق لوگوں کا دوسرے دیسوں کو ہجرت کر جانا۔ ہجرت کی اس خاص قسم کا تعلق عموماً معاشی معاملات سے ہوتا ہے۔ اقتصادیات کی رو سے برین ڈرین ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ اس صورتحال میں کسی ملک کے ایسے باشندے جو اپنے ملک کی معیشت، تعمیر و ترقی اور استحکام میں بھرپور حصہ ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اسے چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں چلے جاتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں اور قابلیت سے ان کا اپنا وطن پوری طرح مستفید نہیں ہو پاتا۔ عام طور پر ہجرت کر جانے والے ان افراد کے اپنے ملک میں ان کی جگہ لینے والے لوگ قابلیت اور لیاقت کے اس درجے پر نہیں ہوتے اور یوں اس کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک وقت گزرنے کے بعد یہ سلسلہ ایک ایسے شیطانی چکر (Vicious Circle) کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے توڑنا قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں برین ڈرین خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے لیکن یہاں پالیسی ساز افراد اور ادارے اس مسئلے کو آج بھی قابلِ توجہ نہیں سمجھتے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں سے قابل اور لائق افراد کی ترقی یافتہ ممالک کی جانب ہجرت کی بہت سی وجوہ بیان کی جاسکتی ہیں اور اس موضوع پر کئی تحقیقی مقالات بھی لکھے جاچکے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ فیصلہ ساز قوتیں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کسی سنجیدہ حکمت عملی کو اختیار کرنے پر غور کیوں نہیں کرتیں؟ اس سوال کے تمام ممکنہ جوابات ہمارے سیاسی اور سماجی ڈھانچے سے جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا اس پر بات کرنے والے افراد کہیں تو سماجی تانے بانے کو زیرِ بحث لاتے ہیں اور کہیں وہ سیاسی معاملات کو پیش نظر رکھ کر اس کے مختلف پہلوؤں سے متعلق اپنی آراء کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن پر سیاسی و سماجی مسائل و معاملات پر غور و فکر کرنے والے سب لوگ متفق ہیں لیکن اس کے باوجود ہم آج تک اس حوالے سے کوئی سنجیدہ لائحہ عمل نہیں بنا پائے۔
وفاقی حکومت کے ادارے بیورو آف امیگریشن اینڈ اووسیز امپلائمنٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سوا کروڑ کے قریب پاکستانی شہری بہتر روزگار اور روشن امکانات کی تلاش میں اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں آباد ہیں۔ صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں موجود پاکستانیوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے۔ گزشتہ پچاس برس کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ سال 1972ء میں ملک سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد تقریباً ساڑھے چار ہزار تھی جو سال 2015 ء کے دوران ساڑھے نو لاکھ کے لگ بھگ ہوگئی۔ بیورو کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق، رواں سال کے پہلے چھے مہینوں میں چار لاکھ بارہ ہزار سے زائد افراد ملک سے باہر جا کر آباد ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد ایسے ہیں جو ملک میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ملنے کے سبب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس حوالے سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ روزگار کی تلاش میں ہجرت کرنے والوں میں انجینئرنگ کے مختلف شعبوں سے جڑے ہوئے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ تدریس اور طب کے شعبوں کی بات کی جائے تو بیس ہزار سے زائد اساتذہ اور تقریباً تیس ہزار ڈاکٹرز اس وقت ملک سے باہر نوکریاں کررہے ہیں۔ اسی طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، سو سے زائد ایسے افراد جو پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ترین ڈگری لینے کے لیے وظیفہ حاصل کر کے بیرون ممالک گئے تھے واپس نہیں آئے۔
روزگار کے سلسلے میں بیرونِ ملک آباد پاکستانی یقینا ملک و قوم کا اثاثہ ہیں اور دوسرے ملکوں میں بیٹھ کر بھی وہ کئی حوالوں سے پاکستان کی خدمت کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی ایک اہم خدمت یہ ہے کہ بیرونِ ممالک سے وہ زرِ مبادلہ کی شکل میں ترسیلاتِ زر پاکستان بھیجتے ہیں اور ان رقوم کی مدد سے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی ادائیگیوں کا توازن قائم رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ تجارتی خسارہ، یعنی درآمدات کا حجم برآمدات سے بڑھ جانا، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کے لیے ایک بڑے دردِ سر کی حیثیت رکھتا ہے۔ بیرونِ ممالک مقیم پاکستانیوں کی مدد سے تجارتی خسارے کے جیسے مسائل پر بھی قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ ان مثبت پہلوؤں کے باوجود کسی بھی ملک کے باصلاحیت اور ہنر مند افراد کی بڑی تعداد کا اپنے وطن کو چھوڑ کر بیرونِ ممالک آباد ہو جانا ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر قابو پائے بغیر اس ملک کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلے پر ہمارے پالیسی سازوں کو سنجیدگی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک ان پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ افراد کی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ رہی ترسیلاتِ زر کی مدد سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے کی بات، اگر حکومت قابل اور لائق افراد کو مناسب مواقع اور خوشگوار ماحول مہیا کرے توسائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں یہ کام ملک کے اندر رہ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔
پس نوشت: مضمون کے عنوان کے طور پر استعمال کیا جانے والا ٹکڑا مرزا محمد رفیع سودا کے درج ذیل شعر کے مصرعِ ثانی میں ذرا سی تحریف کر کے لیا گیا ہے:
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں