کشمیر میں استصواب کیلئے یو این او کو خط لکھا جائے
ملک ندیم عابد ایک شخص کا نہیں، ایک جذبے کا نام ہے ، وہ کشمیر کی تڑپ سے لبریز ہے ۔پچھلے سات برس سے وہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں سفارت کاری کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔میں نے برادرم مجیب شامی صاحب سے ان کا فون نمبر لیا ،ہمارے درمیان کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک بات ہوئی ۔
ایمبیسیڈرملک کے ہونٹوں پر کئی سوالات ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان نے آج تک سیکرٹری جنرل یو این کو خط نہیں لکھا کہ کشمیر میں استصواب کرایا جائے جس کے لیے سلامتی کونسل تقریباً دو درجن قراردادیں منظور کر چکی ہے اور ان قرار داد وں کو پاکستان اور بھارت دونوں نے تسلیم کیا تھا ۔ایمبیسیڈر ملک کہتے ہیں کہ سلامتی کونسل نے استصواب کی قراردادیں تو منظور کردیں جن پر عمل در آمد کے لیے پاکستان کو یو این او کی کمیٹی نمبر چار سے رجوع کرنا چاہئے تھاجو کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق فریقین کے مطالبے پر استصواب رائے منعقد کرنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے ۔
افسوس کی بات یہ کہ 75 برس گزر گئے مگر پاکستان نے کمیٹی نمبر چار سے اس مقصد کے لیے رجوع ہی نہیں کیا ،اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کمیٹی کے پاس اس وقت استصواب کے سترہ معاملات زیر التوا ہیں مگر ان سترہ معاملات میں کشمیر کا کہیں ذکر نہیں ۔سلامتی کونسل نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں استصواب کمشنر کا دفتر قائم کیا جائے۔ یہ کام بھارت کو کرنا تھا جو اس نے نہیں کیا ۔ پاکستان نے پون صدی گزرنے کے باوجود بھارت سے یہ مطالبہ بھی نہیں کیا کہ وہ استصواب کمشنر کا دفتر قائم کرے ، نہ یو این کے سیکرٹری جنرل سے شکایت کی ہے کہ بھارت یہ دفتر قائم نہیں کر رہا ۔ پاکستان کو خود بھی آزاد کشمیر میں استصواب کمشنر کا ایک دفتر قائم کرنا تھا ،یہ کام بھی پاکستان نے آج تک نہیں کیا ۔
ایمبیسیڈر ملک ندیم نے کہا کہ کم از کم پچھلے29برس سے جب سے وہ اقوام متحدہ سے وابستہ ہیں اور جہاں ہر سال جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزرائے اعظم یا وزرائے خارجہ تقریرکرنے کے لئے جاتے ہیں ،وہ جذباتی تقریریں کرکے واپس آجاتے ہیں اور واہ واہ ہوجاتی ہے ۔ملک صاحب ہر وزیر اعظم اور ہر وزیر خارجہ سے کہتے ہیں کہ آپ تقریروں کی بجائے پہلا کام پہلے کریں اور کمیٹی نمبر چار سے استصواب کرنے کے لیے رجوع کریں ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ ان کی باتیں ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں ۔ ایمبیسڈر ملک کہتے ہیں کہ جہاں تک پاکستانی قوم کا تعلق ہے، اس نے مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ ایسی قربانیاں دی ہیں جن کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی ۔لیکن حکومت پاکستان کے ذمہ داران نے کشمیر کے سلسلے میں جذباتی باتیں کرنے کے علاوہ کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ 1947ء میں شروع ہوا جبکہ فلسطین کے تنازع کا آغاز 1949ء میں ہوا مگر فلسطین اسلامی کانفرنس میں ایک مکمل ممبر ہے اور اسے یو این او میں بھی مبصر کی حیثیت سے نمائندگی حاصل ہے ۔کس قدر دکھ کی بات ہے کہ پاکستان آج تک کشمیر کو او آئی سی کا ممبر بھی نہیں بنا سکا ۔جبکہ آج سے پانچ چھ سال قبل تک او آئی سی کے تمام فیصلے پاکستان کی مرضی اور صوابدید کے تحت ہوتے تھے ۔اقوام متحدہ میں نمائندگی دلانا تو دور کی بات ہے ۔
ایمبیسیڈر ملک کے چبھتے ہوئے سوالات جواب مانگتے ہیں اور یہ جواب پاکستان کی تمام حکومتوں کے سربراہوں اور وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ کو دینا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر مہر بہ لب کیوں رہے اور انہوں نے پاکستانی قوم کو جذباتی طور مسئلہ کشمیر کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا مگر اس مسئلے کے حل کے لئے جنرل اسمبلی کا جو طریق کار ہے اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔اس کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے ۔پاکستانی قوم کو اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے تحقیقات کرنی چاہئے اور اپنے حکمرانوں سے پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی سے کوتاہی کیوں کی ۔
ملک صاحب کہتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان سیکر ٹری جنرل اقوام متحدہ کو خط لکھے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے استصواب کروایا جائے ۔یہ خط اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر آجائے گا اور کمیٹی نمبر چار کے ایجنڈے پر بھی آجائے گا ۔ ایمبیسڈر ملک کہتے ہیں کہ پاکستان کے بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے استصواب ِ رائے پر زور دیا تو ہمیں اپنی فوج کو کشمیر سے واپس بلانا ہوگا جبکہ بھارت کی فوج مقبوضہ کشمیر سے نکل کر آزاد کشمیر میں بھی آجائے گی ۔ملک صاحب کا کہنا ہے کہ قراردادوں میں پاکستانی فوج کے انخلا کی کوئی بات نہیں کی گئی اور بھارت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ بارہ سے اٹھارہ ہزار فوجی کشمیر میںرکھ سکتا ہے اور پاکستان کو تین سے چھ ہزار فوج رکھنے کا حق دیا گیا ہے ۔سلامتی کونسل نے اس تعداد کا تعین کرتے ہوئے 1948ء کی صورتحال پیش نظر رکھی تھی ،جب بھارت کے اس کشمیر کا دو تہائی رقبہ اور آبادی تھی جبکہ پاکستان کے پاس صرف ایک تہائی رقبہ اور آبادی تھی ۔بھارت کو زیادہ فوج رکھنے کی اجازت اس لیے بھی دی گئی کہ آزادی کی تحریک کا مقصد سری نگر کی وادی تھی۔اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ ہم استصواب کا مطالبہ اس لیے نہیں کرتے کہ ہمیں اپنی پوری فوج متنازعہ علاقے سے نکالنی پڑے گی ۔
ایمبیسیڈر ملک صاحب سے گفتگو بہت طویل رہی، جو ایک کالم میں نہیں سما سکتی ۔اس لیے میں ان کے بیان کردہ ایک واقعے پر اکتفا کرتا ہوں ۔اب یہ بھی ایک سوال کی صورت میں ہے کہ ہندوستان کی ایک عورت کی پکار پر محمد بن قاسم ؒ اس کی مدد کو پہنچے تھے ۔مگر 23فروری 1991ء کو بھارتی فوج کی راجپوتانہ رائفل یونٹ نے کشمیر کے شمال میں دو جڑواں دیہات کونان اور پوش پورا میں ایک سو خواتین کی عزت لوٹی تھی ۔اس سانحے کو32سال گزر گئے، ان میں سے بعض خواتین جو معمر تھیں وہ دنیا سے رخصت بھی ہو چکیں، لیکن اکثر ابھی تک موجود ہیں اور ان کی چیخیں آسمانوں کو وسعتوں کو چیررہی ہیں مگر ہم نے اپنے کان ان کی طرف سے بند کر رکھے ہیں اور ان کی داد فریاد پر کوئی ایکشن کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ایمبیسڈر ملک کہتے ہیں کہ2018ء میں انہوں نے یو این او کے تحت افریقی خواتین کی حالت پر ایک کانفرنس کا اہتمام کیا تھا ۔کانفرنس کی ساری گفتگو افریقی خواتین کے ارد گرد ہی گھومتی رہی ،اختتامی کلمات کے لیے انہیں دو منٹ ملے، انہوں نے کہا کہ مجھے اپنی جنم بھومی کی مظلوم خواتین یاد آتی ہیں جنہیں بھارتی فوج آئے روزاجتماعی آبرو ریزی کا نشانہ بناتی ہے ۔ان مظلوم خواتین کی تعداد 10 ہزار سے بڑھ چکی ہے اور ان کی عمریں 7 سے 77 سال تک کی ہیں ۔یہ کہتے ہوئے ایمبیسیڈر ملک کی ہچکیاں بندھ گئیں اور پورے ہال میں سسکیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔ایمبیسیڈر ملک کہتے ہیں کہ اس دو منٹ کی گفتگو کی ویڈیو فیس بک پر تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے اور اسے ابھی تک 44کروڑ لوگ سن چکے ہیں اور ان میں کئی ملکوں کے سربراہان بھی شامل ہیں ۔ملک صاحب کہتے ہیں کہ وہ تو اپنی ذات میں کشمیر کا مسئلہ ہر فورم پر اٹھانے کے لیے راضی ہیں مگر اے کاش کوئی حکومت پاکستان بھی اپنا فر ض ادا کرے ۔75 برس بعد سہی ، سیکرٹری جنرل یو این او کو اب تو چٹھی لکھ دی جائے تاکہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرسکیں۔
٭…٭…٭