دہشت گردی کا مرکز افغان سرزمین
پاک سرزمین ایک بار پھر دہشت گردوںکے نشانے پر ہے۔ دہشت گرد جہاں انہیں موقع ملتا ہے دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے سے نہیں چوکتے۔ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کمانڈر عمر خالد خراسانی کی افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں دو ساتھیوں سمیت ہلاکت کے بعد اس تنظیم نے دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کر دی ہیں حالانکہ گزشتہ ماہ اس تنظیم کے ذمہ داران سے افغانستان میں پاکستانی حکام کے مذاکرات ہوئے جن کی وجہ سے وقتی طور پر سہی جنگ بندی بھی ہوگئی ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے جید علماء کے ایک وفد نے مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں افغانستان کا دورہ کیا اور طالبان حکام کے نمائندوںسے بات چیت کی تھی۔ اسکے باوجود اس افغانستان ہی کی سرزمین سے دہشت گرد آکر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کر کے واپس پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔سوموار کے روزشمالی وزیر ستان کے علاقہ میر علی میں سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے کی گاڑی پر دہشت گردوں کی طرف سے ہونے والے حملے کے نتیجے میں چار جوان شہید ہو گئے۔ ملک کی مسلح افواج اگرچہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مستعد اور کوشاں ہیں۔ انہوں نے سرزمین وطن کی دہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور بہت حد تک کامیابی بھی حاصل کی لیکن اب پھر دہشت گردوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ جب تک ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا مکمل صفایا نہیں کر دیا جاتا اور اسکے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کو بھی تہہ تیغ نہیں کیا جاتا علاقائی امن و سلامتی کی ضمانت نہیں مل سکے گی تاہم اس مقصد کے حصول کیلئے کابل حکومت کو بھی پوری طرح تعاون فراہم کرنا ہو گا۔ حکومت پاکستان نے طالبان حکومت کے قیام کے روز ِ اول سے ہی ا سکے ساتھ تعاون کو فروغ دیا ہے اور مشکل ترین حالات میں اسے امداد فراہم کی ہے ۔ طالبان حکومت کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وعدہ کے مطابق اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف تخریب کاری کیلئے ہرگزاستعمال نہ ہونے دے اور خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کا ساتھ دے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایمن الظواہری اور عمر خالد خراسانی کی ہلاکت سے جہاں دہشت گرد تنظیموں کو سخت دھچکا لگا اوران کیلئے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں وہاں قیام امن کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے ۔