یومِ استحصال کشمیر
اگست پاکستانی قوم یومِ استحصال کشمیر کے طور پر مناتی ہے۔ یہ دن 5 اگست 2019 کو ہندوستان کے اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ اقدام کی مذمت کرنے کیلئے منایا جاتا ہے جس کے تحت مقبوضہ ریاست کو ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کے تحت حاصل مخصوص حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے ہندوستان کا ایک باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ اور غیر منصفانہ قبضے کو اب 75 برس ہونے کو ہیں یہ مسئلہ ایک علاقائی نہیں بلکہ بین الاقوامی حیثیت کا حامل ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق یہ غیرجانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں بھی ہندوستان لے کر گیا تھا جہاں پر ایک قرارداد کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے عوام کا حقِ خود ارادیت تسلیم کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں اس بات کو یقینی بنائیں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو استصواب رائے کے ذریعے یہ حق دیا جائے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ انہوں نے ہندوستان کا حصہ بننا ہے یا پھر پاکستان کا۔ ہندوستان، پاکستان اور کشمیری عوام تینوں اس مسئلے کے فریق ہیں۔ ہندوستان نے اس قرارداد کو تسلیم کیا مگر آج 75 سال گزرنے کے بعد بھی اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ ہندوستان نے اپنے آئین میں مقبوضہ ریاست کو خصوصی سٹیٹس دے رکھا تھا جس کے تحت ایک مخصوص علاقہ ہونے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو کچھ مخصوص رعایات حاصل تھیں۔
5 اگست 2019 کو نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت نے اچانک پارلیمنٹ سے آئین میں تبدیلی کروائی جس کے تحت آئین کے آرٹیکل 370اور 35-A کو ختم کردیا گیا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔ یہ عمل غیرقانونی تو تھا ہی مگر اس کے ساتھ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی صریحاً خلاف ورزی تھی کیونکہ ان قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل تک مقبوضہ علاقے کی حیثیت تبدیل نہیں کی جا سکتی اور یہ منصفانہ حل صرف اور صرف آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیری بھی زمین خرید سکتے ہیں جو کہ اب دھڑا دھڑ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دیئے جا چکے ہیں۔لداخ جو کہ اس تنازعے کے تحت مقبوضہ کشمیر کا حصہ ہے اسے اب ایک علیحدہ حیثیت دے کر مرکز کے زیرِ کنٹرول دے دیا گیا ہے۔
یہ ساراعمل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصدمقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکے۔ علاقے میں نئی حلقہ بندیوں کیلئے ایک کمیشن بنایا گیا جس کا سربراہ ممبئی سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو ریٹائرڈ جج کو لگایا گیا جبکہ نیشنل کانفرنس جیسی کٹھ پتلی سیاسی جماعت کے دو ارکان کو رکن نامزد کیا گیا۔ حسبِ توقع اس کمیشن نے اپنی سفارشات پیش کر دی ہیں جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں جموں جو کہ ہندو اکثریتی علاقہ ہے، کیلئے نشستوں کی تعداد 37 سے بڑھا کر43 کر دی گئی ہے جبکہ مسلم اکثریت والے علاقہ کشمیر وادی کیلئے نشستوں کی تعداد 46 سے بڑھا کر47 کر دی گئی ہے اس طرح سے وادی میں ایک نشست کا اضافہ جبکہ جموں کیلئے 6 نشستوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا یہ عمل جنیوا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں ایک ہندو وزیر اعلیٰ لانے کی کوشش کی جائے گی جس کے بعد بتدریج یہ تناسب اتنا تبدیل کر دیا جائے گا کہ اگر کبھی استصوابِ رائے کروانا بھی پڑے تو مسلمانوں کی تعداد اقلیت میں ہو۔ہندوستان کے اس یکطرفہ اور غیر منصفانہ اقدام پر بین الاقوامی برادری حسب معمول خاموش ہے ہی پاکستان کی حکومت کا طرزِ عمل بھی مایوس کن رہا ہے۔ ایک اتنے بڑے اقدام کو جس کے بعد مقبوضہ علاقے کی حیثیت ہی بتدریج تبدیل ہو رہی ہے جس کا براہ راست اثر اس تنازع کے حل پر پڑے گا اسے اجاگر کرنے اور اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروانے کیلئے تو پاکستان کو دنیا بھر میں جارحانہ سفارت کاری کرنی چاہیے تھی تاکہ ہندوستان کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کیا جاتا مگر بدقسمتی سے پاکستان کا ردِ عمل بھی صرف بیانات اور اپنی پارلیمنٹ سے منظور کروائی گئی چند قراردادوں تک ہی رہا۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے دعووں کے برعکس نہ بیرونی ممالک کا کوئی دورہ کیا اور نہ ہی بین الاقوامی لیڈر شپ کو اس بارے میں اپنے مؤقف سے بھرپور طریقے سے بتایا۔ اسکے برعکس ہندوستان کی حکومت اپنے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے۔ حریت قیادت کے اہم ارکان جو پاکستان سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے یا تو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں یا پھر پابند سلاسل ہیں جس کی زندہ مثال جناب یاسین ملک ہیں جنہیں حال ہی میں غیرمنصفانہ طریقے سے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔