نظریات کا جھگڑا
نظریات کا جھگڑا تو ازل سے ہی رہا ہے، سو وہ اب بھی ہے اور موجودہ دور میں نئی جہتوں کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔ عالمی افق پر نئے تنازعات ابھر رہے ہیں اور ایشیا میں کئی ممالک سرحدی تنازعات اور جنگوں میں الجھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس دوران کورونا وائرس نے انسانوں سے زیادہ دنیا کی معیشت کو نشانہ بنایا ہے۔ وبائی مرض کے سماجی اور نفسیاتی اثرات کا نتیجہ سماجی فاصلوں اور خوف کی شکل میں ابھرا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں سماجی فاصلوں، ماسک لگانے اور بل گیٹس کی بنوائی ہوئی ویکسین اور ہاتھ میں کمپیوٹر چپ لگوانے سے انکار کی تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس وبا کی آڑ میں سماجی دوریاں پیدا کرکے سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت مضبوط بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس ویکسین کے ذریعے نہ صرف پیسہ بٹورنے کی کوشش کی جائے گی بلکہ لوگوں کی دولت اور آمد و رفت کو بھی کنٹرول کر لیا جائے گا۔ ادھر امریکہ میں دائیں بازو کے سفید فام باشندے ارب پتی یہودی جارج سوروس پر سیاہ فام باشندوں کی تحریک کو سرمایہ فراہم کرنے کا الزام لگا رہے ہیں جبکہ جارج سوروس نے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے لیے پانچ لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ سرمائے کا اپنا ایک نظریہ ہے اور وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ منافع دوسروں کے خسارے، تباہی اور ہلاکت سے مشروط ہو جائے۔ ایک طرف مغربی ممالک میں شہری آزادیوں کی بحالی کے لیے تحریک ابھر رہی ہے تو دوسری جانب بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی نے شہید کی جانے والی قدیم بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی مندر کا سنگ بنیاد رکھ کر ایودھیا کو بت پرستی اور اونچی ذات کے ہندوئوں کی بالادستی کا نیا سیاسی، سماجی اور معاشی مرکز بنانے کی جانب ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ سنگ بنیاد کی تقریب میں رام کے نام پر وزیر اعظم نریندر مودی کا سیاسی قد اور اہمیت رام سے بلند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بابری مسجد کا تنازع پہلی بار 1822ء میں ابھر تھا لیکن ایل کے ایڈوانی اور بی جے پی کے دوسرے رہنمائوں نے سومنات سے رام رتھ یاترا کا آغاز اکتوبر 1990ء سے کیا۔ اس رام رتھ یاترا کی وجہ رام کی محبت سے زیادہ اونچی ذات والے ہندوئوں کی سیاسی بالادستی برقرار رکھنا تھا کیونکہ وزیر اعظم وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارشات منظور کر لی تھیں اور بھارت کی کل آبادی کا 52 فیصد حصہ اچھوت اور دوسری پسماندہ ذاتوں پر مشتمل ہے۔ جس کے لیے وی پی سنگھ نے سرکاری ملازمتوں میں 27 فیصد کوٹہ مقرر کرکے اپنا ووٹ بینک پکا کر لیا تھا جبکہ بی جے پی کے اکثر ووٹر اونچی ذات والے ہندو ہیں۔ بھارت کے سماجی نظام میں ذات پات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ نیشنل کمیشن فار بیک ورڈ کلاسز کے اندازوں کے مطابق بھارت میں پسماندہ اور اچھوتوں کی 5,013 ذاتیں ہیں۔ اس صورت میںکم تعداد اونچی ذات والے ہندوئوں کے سامنے اپنے اقتدار اور اختیار کو دوام بخشنے واحد طریقہ یہ تھا کہ کسی طرح سے مختلف ذاتوں میں بٹے ہوئے منتشر ووٹوں کو بی جے پی کے حق میں یکجا کیا جائے۔بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہی ایک ایسا مدعا تھا جس سے بی جے پی اور آر ایس ایس سیاسی فائدہ اٹھا سکتے تھے، جس کے لیے مسلم کش فسادات کروائے جاتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست کو رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ کر ایک تیز سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے تقریباً تمام نیوز چینلز پر خاص طور سے اونچی ذات والے ہندوئوں کا غلبہ ہے، جس کی وجہ سے ہر چینل پر بی جے پی کی جے جے کار اور مسلمان، پاکستان اور اسلام مخالف پروپیگنڈا ہر روز ہی کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں شروع ہوئی ہے، بی جے پی کی حکومت سے پہلے بھی پاکستان مخالف پروپیگنڈا ہر وقت کسی نہ کسی چینل پر جاری رہتا تھا، اگر کوئی خبر نہیں ہوگی تو کسی چینل پر بالی وڈ کی کوئی پاکستان مخالف مووی دکھائی جا رہی ہوگی جسے ہوٹل اور ریسٹورانٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ دیکھ رہے ہوں گے۔ آج جب چین نے بھارت کی خطے میں بالادستی کی پالیسیوں کو گمبھیر انداز سے چیلنج کیا ہے اور نیپال جیسا زیر دست ہندو دیش بھی اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے تو تب بھی بھارت میں پاکستان کی مخالفت، تباہی، ٹکڑے ہو جانے اور اکھنڈ بھارت کا غلام حصہ بنا لینے کی باتوں والے پروگرام اور پیشگوئیوں کو سب سے زیادہ عوامی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ مسلمان، پاکستان اور اسلام مخالفت بھارت کی عوامی سوچ کا حصہ ہے۔بھارت میں قائد اعظم محمد علی جناح کا نام ہمیشہ نفرت بھرے لہجے سے ہی لیا جاتا ہے لیکن یہاں لوگ گاندھی کو اب بھی مہاتما بنانے پر تلے ہوئے ہیں حالانکہ خود بھارت میں گاندھی کے قاتل کو زیادہ عزت دی جا رہی ہے۔ ان سب باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ جب بھارت میں پاکستان سے نفرت اور دشمنی کی پالیسیاں واضح ہیں تو پاکستان میں بھی کسی کو بھارت کے بارے میں ابہام نہیں رہنا چاہیئے۔ اگرپاکستان کی موجود ہ بد حالی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حکومتوں کی مبہم پالیسیوں کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر سکا ہے۔ اس پر بدعنوانی، رشوت، سفارش، ناخواندگی اور غربت کا تڑکا بھی لگا ہوا ہے۔ اگر فیصلوں میں ابہام ہو تو کھیل میں بھی شکست ہو جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ پشاور میں اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بنائی گئی پالیسی میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ مودی سرکار نے گزشتہ سال 5 اگست کو مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے ہندو انتہا پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسانے اور کشمیریوں کی انفرادی حیثیت ختم کر دینے کی جانب ایک قدم بڑھایا تھا۔ تاہم مودی سرکار کے مقبوضہ کشمیر کے حالات کا غلط اندازہ لگایا تھا جس کا نتیجہ ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون ہے اور وادی کی معیشت کو ایک سال میں تین کھرب روپے کا نقصان ہو چکا ہے لیکن کشمیریوں نے بھارت کے ہندتوا نظریات کے سامنے نہ تو ہارمانی ہے اور نہ ہی بھارت کے قبضے سے آزادی حاصل کرنے کے نظریے سے دستبردار ہوئے ہیں۔جب نیپال نے بھارتیوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کیں تو ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ہوئے اونچی ذات والے اینکرز نے روایتی تکبر سے یہ کہتے دیکھے گئے ہیں کہ بھارت میں ملازمتوں کی تلاش میں آنے والے نیپالیوں کی اتنی اوقات نہیں ہے، چین کی وجہ سے نیپال کی اتنی ہمت ہوئی ہے کہ وہ بھارت کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دے یا نیا نقشہ منظور کروا لے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ لوگ بھارت اور نیپال کے مابین مذہبی اور سسرالی رشتوں کی دہائی دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ نیپال کا مائو نواز جمہوری نظام لپیٹ کر وہاں بادشاہت دوبارہ قائم ہونی چاہیئے۔ صرف بادشاہت ہی اسے دوبارہ ہندو راشٹراور بھارت کا اتحادی بنا سکتی ہے ۔ تجزیوں اور تبصروں سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آئندہ مہینوں میں بھارت کی نظریاتی بالادستی قائم کرنے کے لیے نیپال میں کوئی حکومت مخالف تحریک چلوائی جا سکتی ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی سوچ ہے جو امریکہ میں چین کی حکومت تبدیل کرنے سے متعلق پائی جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نظریاتی لڑائی میں امریکہ ، چین کو شکست دے پائے گا؟لبنان کے دارالحکومت بیروت کی پورٹ پر رکھے ہوئے 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ کے ذخیرے میں ہونے والے تباہ کن اور ہلاکت خیز دھماکے کے بعد خطے میں اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین جنگ کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ابتدائی بیان میں اس واقعے کو حملہ قرار دیا تھا۔اسرائیل اور لبنانی حزب اللہ کے مابین 2006ء میں بھی جنگ ہوئی تھی لیکن ان گزشتہ 14 برسوں کے دوران حزب اللہ کے دور مار ہتھیاروں کی تعداد اور صلاحیتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اب اسرائیل بھی حزب اللہ سے الجھنے میں محتاط ہو گیا ہے۔ گو کہ اس دھماکے کو حادثہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن بیروت میں کچھ لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے دھماکوں سے چند لمحے پہلے وہاںدو اسرائیلی طیارے اڑتے ہوئے دیکھے جو اکثر ان علاقوں میں پرواز کرتے رہتے ہیں۔ امونیم نائٹریٹ کے اس ذخیرے کا تعلق حزب اللہ سے جوڑا جا رہا ہے جو وہاں گزشتہ 6 سال سے وہاں رکھا ہوا تھا اور اس غیر قانونی درآمد سے متعلق مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے، لیکن بدعنوانی اور سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے اس مقدمے کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے ایران اور شام نواز حزب اللہ کو نقصان پہنچانے کے لیے پورٹ پر حملہ کیا تھا لیکن اتنی بڑی تباہی کے بعد مکر گیا ہے۔اسرائیل میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ لبنان کی معاشی تباہی سے حزب اللہ بھی برباد ہو جائے گی۔حالیہ تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی ملک کی معاشی تباہی سے جنگ اور خانہ جنگی ختم نہیں ہوئی بلکہ سامراجی قوتوں کو طویل لڑائیوںمیں نقصان اٹھا کر پسپا ہونا پڑا ہے۔ اس وقت لبنان کی طرح اسرائیلی عوام بھی حکومت کی بدعنوانیوں اور کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی اور کاروبار کی بندش پر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہودیوں کا ایک مذہبی طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو صیہونیوں کے دعوئوں کے برعکس یہ کہتا ہے کہ خدا نے ہمیں پہلے سے آباد علاقے میں لا کر بسایا تھا لیکن اس زمین پر حاکمیت کا ویسا حق نہیں دیا تھا جس طرح کا حق آج اسرائیلی صیہونی جتاتے ہیں۔موجودہ حالات میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایشیا میں جو نظریاتی اتحاد بن رہے ہیں اس مسلم ممالک اور چین ایک جانب ہیں جبکہ ہندو راشٹر بھارت ، صیہونی اسرائیل اور لبرل امریکہ ایک جانب ہیں۔ان اتحادوں میں شامل ممالک اندرونی اختلافات کا شکاربھی ہیں۔ اس صورتحال میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کامیابی اسی کو ملے گی جو اپنے اندرونی اختلافات، کورونا وائرس اور معاشی بحران پر جلد قابو پانے کے ساتھ ساتھ آئندہ دس برس کے دوران رونما ہونے والی معاشی، سماجی اور ٹیکنالوجی کی تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ کر لے گا۔