منگل 20 ؍ ذوالحج 1441 ھ‘ 11؍ اگست 2020ء
عدم مشاورت پر نیشنل پارٹی بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے ناراض
اپوزیشن کی حالت پہلے ہی بہت پتلی ہے۔ اب یکے بعد دیگرے سوکھے تنکوں کی طرح متحد اپوزیشن کی جماعتیں ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں ، اس سے تو لگتا ہے کہ بہت جلد وہاں …؎
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
والی حالت سامنے ہو گی۔ پہلے جے یو آئی یعنی مولانا فضل الرحمن کی جماعت اپوزیشن اتحاد کے ہاتھ کو جھٹک کر چلی گئی ہے۔ انہیں گلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی والے اصل اپوزیشن والا کردار ادا نہیں کر رہے۔ ان دونوں جماعتوں کی ڈھیلی ڈھالی بے ضرر پالیسیوں کی وجہ سے حکمرانوں کو ڈھیل مل رہی ہے۔ اب یہی شکایت نیشنل پارٹی بھی کر رہی ہے کہ یہ دو بڑی اپوزیشن جماعتیں کسی مسئلے پر بیان یا پالیسی جاری کرنے سے قبل چھوٹی جماعتوں سے مشاورت تک نہیں کرتیں یعنی انہیں گھاس نہیں ڈالتیں ۔ اتحاد میں چھوٹی بڑی سب جماعتیں برابر ہوتی ہیں۔ انکی رائے کا احترام ضروری ہوتا ہے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر میر کبیر نے کھل کر اس دو جماعتی رویے کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ جس پر بلاول زرداری اور شہباز شریف کو سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ اڑھائی تنکوںپر قائم یہ اپوزیشن گھونسلہ ہوا کا ایک تھپڑ بھی برداشت نہ کر سکے اور تنکے تنکے ہو کر بکھر جائے۔ سیاسی اتحاد قائم رکھنے کے لیے نواب زادہ نصراللہ خان جیسی سیاسی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جو بنا کسی نشست کے بھی بڑی بڑی منہ زور سیاسی جماعتوں کو قابو کئے رکھتے تھے اور ان کی قیادت بھی کرتے تھے۔
٭٭٭٭٭
پاکستان سے بھارت جا کر آباد ہونے والے ہندو خاندان کے 11 افراد کی پراسرار ہلاکت
بھیل قبیلے کا یہ بدقسمت خاندان چند سال قبل پاکستان کے علاقے تھرپارکر سے جا کر راجستھان بھارت میں آباد ہوا تھا۔ اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہو گی کہ یہ لوگ دوسرں کے بہکاوے میں آ کر آنکھوںمیں نجانے کون کون سے سپنے سجائے تھر سے راجستھان کوچ کر گئے۔ وہ یہ بھول گئے کہ ان کا یہ سفر ایک جھونپڑی سے دوسری جھونپڑی تک ہی محدود رہے گا۔ انہیںوہاں کوئی محل اور سرسبز جاگیر نہیں ملے گی۔ وہ بھول گئے تھے کہ بھارت کے اونچ نیچ پر کھڑے سماج میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔ ان ہندو مہاجرین کو سرسبز شاداب علاقوں کی بجائے راجستھان کے صحرائی علاقے میں رکھا گیا وہ بھی جھونپڑیوں میں۔ گویا ان کی زندگی کا جو سفر جھونپڑی سے شروع ہوا تھا وہ جھونپڑی پر ہی اختتام پذیر ہوا۔ نجانے باقی بھارت جانے والوں پر کیا گزر رہی ہو گی۔ اگر وہاں بھی روکھی سوکھی ہی کھانا ہے تو وہ یہاں پاکستان میں بھی دستیاب تھی۔ یہاں کم از کم زندگی تو میسر تھی۔ مٹھی بھر چاول اور بالشت بھر زمین کے ساتھ سر پر آسمان تو موجود تھا۔ اس بدنصیب خاندان کا صرف ایک فردہی بچا ہے باقی گیارہ افراد پراسرار طور پر مار دئیے گئے ہیں۔ کیا معلوم انہوں نے خود بھارت آنے کے اپنے غلط فیصلے سے دل برداشتہ ہو کر کوئی انتہائی قدم اٹھایا ہو۔ بھارت میں خود ہندو سماج نفرت اور اونچ نیچ کی بنیادوں پر کھڑا ہے۔ جہاں باہر سے آنے والے ان بے چارے غریب لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ بات ہمارے دیگر ہندو برادری کے دوست بھی جان لیں تو ان کے لیے بہتر ہو گا۔ اس طرح وہ بے موت مرنے سے تو بچ سکیں گے۔
٭٭٭٭٭
کرونا کی صورتحال میں بہتری‘ ملک بھر میں کاروبار حیات پھر چل پڑا
جو لوگ حکومت کی گردن دباتے ہوئے اسے ملک بھر میں مکمل سخت لاک ڈائون کے مشورے دیتے پھرتے تھے۔ اب وہ کیا کہیں گے۔ جن ممالک میں سخت ترین لاک ڈائون ہوا وہاں بھی اب آہستہ آہستہ زندگی اپنے پرانے ڈگر پر لوٹ رہی ہے۔ پاکستان میں اس کے باوجود کہ سمارٹ لاک ڈائون رہا اموات کی شرح بھی کم رہی۔ شکر ہے کہ حکومت کی کامیاب حکمت عملی کے تحت عوام پر زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑا۔ احتیاطی تدابیر کی بدولت کرونا بنا کوئی بڑا نقصان کئے آہستہ آہستہ کھسک رہا ہے۔ اب گزشہ روز سے سنیما گھر کاروباری تجارتی مراکز کھل گئے۔ سڑکوں ، بازاروں ، پارکوں اور قہوہ خانوں کی رونقیں بحال ہو گئیں۔ دیہاڑی دار طبقے نے سکون کا سانس لیا کیونکہ وہ اس لاک ڈائون کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر تھا۔ اب عوام کا فرض ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر ازخود عمل پیرا رہیں۔ کرونا کم ہوا ہے مکمل طور پر ختم نہیں ہوا اس لیے ہمیں ازخود احتیاط سے کام لینا ہو گا تاکہ یہ رونقیں بحال رہیں ورنہ
یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے ………
والی حالت سے ہم گزر ہی چکے ہیں۔ اس لیے مناسب سماجی فاصلہ اور رش والی جگہوں پر جانے سے اجتناب ضروری ہے تاکہ ہم سب اس دنیا کے میلے سے لطف اندوز ہو سکیں۔
٭٭٭٭٭
خیبر پی کے میں شہریوں نے شجرکاری مہم کے فوری بعد پودے اکھاڑ لیے
ان ماحول دشمن عناصر کے خلاف تو ماحولیاتی دہشت گردی کا مقدمہ قائم ہونا چاہئے۔ ایک طرف حکومت ٹریلین ٹری، بلین ٹری جیسے منصوبے بنا بنا کر تھک گئی ہے۔ اب اپنی ٹائیگر فورس کی مدد سے ایک دن میں 35 لاکھ درخت لگانے کا ریکارڈ بنا رہی ہے تاکہ ملک کو سرسبز و شاداب بنایا جا سکے۔ خدا کرے یہ مہم ہماری سابقہ شجرکاری مہم کی طرح بے کار مشقت نہ ٹھہرے۔معلوم نہیں خیبر پی کے میں شجرکاری کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی اقبال آفریدی یہ کیوں بھول گئے کہ منڈی کس باڑہ میں جس جگہ وہ شجرکاری کر رہے ہیں وہ کسی کی نجی ملکیت ہے۔ بلااجازت شجرکاری پر زمین کے مالکان نے غصے میں آ کر رکن پارلیمنٹ کے رخصت ہوتے ہی بکریوں کی طرح پودوں پر ہلہ بول دیا اور سارے پودے اکھاڑ کر لے گئے۔ اب خدا کرے وہ یہ پودے بیشک کسی دوسری جگہ لگا دیںانہیںضائع نہ کریں بکریوں کا چارہ نہ بنائیں۔یہ مشتعل افراد پودوں کے ساتھ محکمہ جنگلات والوں کے بیلچے اور کدالیں تک چھین کر لے گئے۔ کیا اقبال آفریدی بتا سکتے ہیں کہ انہوں متنازعہ جگہ پر شجرکاری کیوں کی جس سے اتنانقصان ہوا…
٭٭٭٭