اتوار ‘ 9؍ ذی الحج‘ 1440ھ‘ 11؍ اگست 2019ء
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شیخ رشید فواد چودھری پر برس پڑے
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کی موجودگی میں وزیر ریلوے شیخ رشید نے جس طرح وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کی خبر لی۔ اس کے بعد تو فواد جی کی ساری سائنس دھری کی دھری رہ گئی۔ حالانکہ چودھر جی بھی کافی وسیع البیان ہیں۔ زبان بھی ان کی بالشت بھر نہیں گز بھر کی ہے۔ نجانے کیوں اس موقع پر بول نہ پائے ورنہ پریس کانفرنسوں اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں تو وہ گھنٹوں بے تکان بولتے ہیں۔ شاید وزیراعظم کی موجودگی نے فواد چودھری کی زبان روک لی تھی اور وہ احتراماً خاموش رہے مگر شیخ جی کی تمام لن ترانیوں کے جواب میں اگر وہ صرف…؎
جان کہہ کر جو بلایا تو برا مان گئے
آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے
ہی کہہ دیتے تو کم از کم شاعرانہ انداز میں ان کا مدعا پورا ہو جاتا۔ وزیراعظم بھی برا نہ مناتے مسکرا دیتے۔شیخ رشید کو کافی دنوں سے فواد چودھری پر تپ چڑھی ہوئی تھی۔ فواد جی نے انہیں صرف یہ کہا تھاکہ ریل گاڑیاں بند کرنے کا اختیار انہیں نہیں ہے۔ اب شیخ جی نے ان کو کابینہ میں کھری کھری سناتے ہوئے یہ بھی باور کرایا ہے کہ وہ سینئر ترین وزیر ہیں۔ نجانے انہوں نے یہ کیوں کہا حالانکہ وہ تو اتحادیوں کے کوٹے پر وزیر بنے ہیں۔ ورنہ عمر میں ان سے بڑے کئی بابے بھی کابینہ میں شامل ہیں۔ اور پھر سینئر وزیر کا عہدہ وزیراعظم کے بعد اہم ترین ہوتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں وزیراعظم کی مسکراہٹ کے بعد فواد چودھری یہ معاملہ چھوڑتے ہیں۔ یا شیخ جی کو چھٹی کا دورہ یاد دلاتے ہیںکیونکہ کابینہ کے اجلاس میں اتنی باتیں ہضم کرنا خالا جی کا گھر نہیں۔
٭…٭…٭
پنجاب کے صوبائی وزرا کے بیرون ملک علاج اور دوروں پر پابندی
وزیراعلیٰ پنجاب نے جس طرح دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہو گا وہ تو وہی جانتے ہیں۔ اتنے وزیروں، مشیروں کو ناراض کرنا کوئی معمول بات نہیں۔ خاص طور پر جب اکثر وزرا خاصے بااثر بھی ہیں۔ مگر وزیراعلیٰ کے اس فیصلے سے پنجاب کے عوام کو جو مسرت ہوئی ہے وہ ان وزرا کی ناراضگی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ عوام الناس بیماری کا شکار ہوں تو سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جہاں معمولی سہولتوں سے بھی انہیں محروم رکھنے کی پوری کوشش کی جاتی ہیں۔ اکثر ڈاکٹر توجہ نہیں دیتے کبھی وارڈ میں جگہ نہیں ہوتی اور عام طور پر ہسپتال کی ڈسپنسری میں دوا موجود نہیں ہوتی۔ جب ایسی تکالیف کا شکار عوام یہ دیکھتے ہیں کہ وزرا کان کے درد کے علاج کیلئے بیرون ملک جاتے ہیں یا معمولی سر درد اور بلڈ پریشر کے چیک اپ کبلئے غیر ملکی یاترا کرتے ہیں تو انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ انہیں اپنی محرومیاں بہت ستاتی ہیں۔اب وزیروں کے غیر ملکی دوروں اور علاج پر پابندی سے حکومت پنجاب کے خزانے پر جو نادوا بوجھ پڑتا ہے وہ بھی کم ہو گا اور عوام بھی خوش ہوں گے۔ رہی بات وزیروں کی ناراضگی کی تو اس میں ناراض ہونے والی کوئی بات نہیں۔ ماشاء اللہ نظر بد دور سارے صحتمند نظر آتے ہیں ۔ اگر باہر علاج ضروری بھی ہے تو یہ اپنے خرچ پر جا سکتے ہیں۔ انہیں کون سی ٹینشن ہے۔ مال و دولت انکے پاس بے شمار ہے۔ یہ باسانی بیرون ملک علاج کا شوق پورا کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭
قومی اسمبلی میں غباروں سے نیا جھنڈا گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل
پاکستان ہندو، کونسل کے سرپرست اعلیٰ اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے قومی اسمبلی میں غباروں سے بنایا قومی پرچم سجا کر ہندو برادری اور پاکستانی اقلیتوں کی طرف سے حب الوطنی کا جو خوبصورت مظاہرہ کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔کیونکہ
یہ پیارا پرچم ہمارا پرچم
یہ پرچموں میں عظیم پرچم
ہمارے لئے باعث فخر ہے جو گزشتہ کئی روز سے قومی اسمبلی کی شان بڑھا رہا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں اقلیتی برادریاں مکمل آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہیں۔ وہ مسلمانوں کی طرح اپنے وطن پاک سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ یہاں انہیں اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت ہے۔ اس جذبے اور حب الوطنی کے تحت پاکستان ہندو کونسل کی طرف اتنا بڑا غباروں سے نیا قومی پرچم جب قومی اسمبلی میں آویزاں کیا گیا تو تمام ممبران اسمبلی نے خوشی کا اظہار کیا اکثر ممبران اسمبلی اس خوبصورت قومی پرچم کے ساتھ سیلفیاں بھی بناتے رہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب کے دل وطن کی محبت میں یکساں دھڑکتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے پرچم کا ایک چوتھائی حصہ جو سفید رنگ پر مشتمل ہے۔ وہ پاکستان میں آباد اقلیتوں کی ہی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمارے رہنماؤں اور بانیانان پاکستان کے ذہن میں قومی پرچم منظور کر تے ہوئے بھی اقلیتوں سے محبت اور انکی فلاح و بہود کا تصور موجود تھا۔ جسکا ترجمان ہمارا قومی پرچم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک 72 برسوں میں کوئی بھی پاکستانی حکومت اپنے قائدین کے تصور سے رتی بھر بھی انحراف نہیں کر پائی۔ اس کے برعکس ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا۔ اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اقلیتوں کی تو بات چھوڑیں وہاں خود ہندو نچلی ذات والے بھی اونچی ذات والے حکمرانوں کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں۔
٭…٭…٭
احتساب عدالت کے باہر لیگی کارکنوں اور پولیس میں ہاتھا پائی ، مقدمات درج
مسلم لیگ (ن) والوں کو اپنے گرفتار رہنماؤں سے اظہار یکجہتی کچھ مہنگا ثابت ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز مریم نواز اور یوسف عباس کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے اپنے چند رہنماؤں کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے اپنے ساتھ احتجاج پر اکسایا۔ کارکنوں نے پولیس پر ہلا بولنے کی کوشش کی تو جواب میں ڈنڈوں سے ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ رہنما تو جان بچا کر اِدھر اُدھر ہو گئے مگر کئی کارکنوں کو ڈنڈے پڑے۔ اب پتہ چلا ہے کہ کارکنوں کے جوش و خروش سے ہوا نکالنے کیلئے ان کے خلاف مقدمات درج کر لئے گئے ہیں۔ اب خدا جانے یا حکومت جانے کہ ان کو عید سے قبل پکڑ کر حوالات پہنچایا جائے گا یا بعد میں۔ مگر یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ وہی پہلے اندر جائے گا جو زیادہ شور مچائے گا۔ یہ بات کئی روز وزرا بھی کہہ چکے ہیں۔ گزشتہ روز جس طرح سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی پیشی کے موقع پر پولیس نے بڑی مہارت اور خاموشی کے ساتھ ان کے داماد کو قابو کیا وہ سب کیلئے مثال ہے کہ ان کو بھی ایسے اچانک اچک کرلے جایا جا سکتا ہے۔ اب اس گرم حبس آلود موسم میں مسلم لیگی کارکنوں یا رہنماؤں میں اتنا دم خم نہ تھا نہ ہے کہ وہ اپنے لیڈروں کیلئے حوالات یا جیل میں چند دن بسر کر سکیں۔ ویسے بھی اب عید کی چھٹیاں ہیں لوگوں کو سب سے زیادہ قربانی کے جانوروں کی فکر ہے یا گوشت کی۔