گزشتہ دنوں ایک عزیز کو الوداع کہنے لاہور کے بین الاقوامی ہوائی مُستَقَر علاّمہ اِقبالؒ جانے کا اتفاق ہوا۔ پاکستان ائیرلائینز کی پرواز کی روانگی میں حسبِ معمول تاخیر تھی۔ میں تھکن کا شکار ہونے کی وجہ سے ہوائی اڈہ کی مسجد میں نماز کی ادائیگی کیلئے چلا گیا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد بھی پرواز کی روانگی میں ہنوزتاخیر تھی۔ مسجد میں لیٹ گیا۔ مسجد کے پر سکون اور ٹھنڈے ماحول میں جلد ہی غنودگی طاری ہو گئی جو جلد ہی نیند میں بدل گئی اور میں دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگیا۔ لیکن دماغ کو آرام نصیب نہ تھا۔ اِدھر جسم نے سکون لیا اُدھر دماغ نے سفر شروع کردیا ’’ دانش وروں کا مقولہ ہے کہ’’انسان جب تک دور دراز کے سفر نہ کرے انسانی عقل کبھی کامل نہیں ہوتی‘‘ یوں سفر وسیلہ ظفر بھی ہے اور حکمت و دانش کاذریعہ بھی(بے شک تخیل میں کیا جائے) یہ کوئی یورپی ائیر پورٹ تھا جہاں میں اُترا۔ ائیر پورٹ کی عمارت قابلِ دید تھی۔ چار منزلہ اس عمارت میں ہر طرف نظم و ضبط کا راج تھا۔ صفائی ستھرائی کا بہترین انتظام تھا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک عورت اپنے معصوم بچے کو غسل خانے میں نہلا رہی ہے۔ پوچھنے پر بتایا کہ مسلمان ممالک کے ہوائی اڈوں کے غسل خانے متعفن اور بد بو دار ہوتے ہیں وہاں سے آگے پہنچا تو اس ملک کے وزیراعظم سائیکل پر جاتے ملے پوچھا جناب یہ کیا! آپ تو وزیر اعظم ہیں۔ جواب ملا یہ میرا روزانہ کا معمول ہے دفتر جانے سے پہلے گھر میں سودا سلف دے کر جاتا ہوں۔ اس سفر میں ایک اور ائیر پورٹ پر پہنچا۔ ائیر پورٹ سے باہر نکلا تو سٹرک پر کسی کی کرنسی پڑی نظر آئی۔ حسب ِ معمول بحثیت ایک اچھے پاکستانی اسے اٹھانا چاہا تو ایک آٹھ دس سالہ بچے نے منع کردیا اور کہنے لگا ’’ اسے مت اٹھانا جس کی بھی ہو گی آکر لے جائے گا۔ یہاں عمرؓ لائUmar law) (چلتا ہے۔ آپ کو سزا ہو سکتی ہے‘‘ وہاں سے اگلی منزل پر بھی ایک غیر مسلم ملک کی مسجدمیں نماز پڑھنے کے واسطے داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک طرف چھوٹی سی چار دیواری بنی ہے اور اسکے اندر آنے والا اپنا اسباب ڈال رہے ہیں اور کچھ لوگ اس میں سے سامان نکال کر لے جا رہے ہیں۔ پاس کھڑے وہاں کے ایک مقامی فرد سے پوچھا یہ مسجد ہے یا کوئی گودام ہے۔ اس نے جواب دیا ’’لوگ بازار میں خریداری کرتے ہیں۔ سامان یہاں مسجد میں رکھ جاتے ہیں۔جب گھر واپسی جاتے ہیں تو یہاں سے اپنا سامان اُٹھا کر چلے جاتے ہیں میں نے کہا چوری نہیں ہوتی! تو اس نے اپنی گردن پر یوں اُنگلی پھیری جیسے چھری چلائی جاتی ہے۔ کہنے لگا سامان اُٹھانے والے کے ہاتھ نہیں گردن ہی الگ کر دی جاتی ہے۔اور یہ بات سُن کر مجھے قُرآن کی کہی ہوئی نصیحت یاد آگئی کہ جو مِل جائے اُس پر صبر اور شکر کرنا قناعت کہلاتا ہے، جو انسان قناعت پسند نہیں وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اور شیطان اُسے اس بات پر ورغلاتا اور دوسروںپر برتری حاصل کرنے کیلئے غیر فطری اور ناجائز طریقے اسکے ذہن میں ڈالتا رہتا ہے۔ انسان میں دوسروںسے آگے بڑھنے کی جستجو جو حسد کو جنم دیتی ہے۔ جس سے بچنے کی ہمیں تلقین کی گئی ہے۔دُنیا بھر کے ملکوں کا چکر لگا چکا تھا۔ سوچا چلو اب مسلم ممالک کی بھی سیرکر لی جائے۔ سب سے پہلے سعودی عرب مسجد الحرام پہنچا دیکھا تو مسجد کی ڈیوڑی میں رنگ برنگے جوتوں کا ڈھیر لگا ہے۔ جس کو کوئی نہیں چھیڑتا البتہ جس کو اپنا جوتا تلاش کرنا ہوتا ہے اس ڈھیر میں سے تلاش کر کے لے جاتا ہے۔اسکے بعد ایران کے شہر مشہد پہنچا۔ وہاں جوتے ایک ترتیب سے خانوں میں رکھے تھے لوگ آتے ،جوتا جمع کراتے ٹوکن لیتے اور چلے جاتے۔ واپسی میں ٹوکن جمع کراتے اپنا جوتا لیتے اور بغیر کوئی معاوضہ دیئے چلے جاتے۔ کیونکہ یہ دونوں انسان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ اتنے میں مجھے ٹھوکر لگی تو آنکھ کھل گئی۔ اور کانوں میں یہ آواز پڑی اٹھو بھائی ’’غفلت کی نیند وہ بھی مسجد میں‘‘۔کوئی جوتا چرا کر لے گیا تو پھر شور مچاتے پھرو گے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024