ہفتہ‘ 28ذیقعد 1439 ھ ‘ 11 اگست 2018ء
قائد کو ایسے نتائج کی توقع نہیں تھی :مریم اورنگ زیب
سابق وزیر اطلاعات و مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کو الیکشن میں اس قسم کے نتائج کی توقع نہیں تھی۔ اس قسم کے نتائج کی نواز شریف ہی نہیں کسی کو بھی توقع نہیںتھی۔پچھلے ستر برس میں کئی بار انتخابات ہوئے، دھاندلی ، جھرلو اور انجینئرڈ کی اصطلاحیں بھی سننے میں آتی رہیں ۔ بلکہ جھرلو کی اصطلاح ، خالصتاً دیسی ہے۔ 2018کے انتخابات کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں نہ دھاندلی ہوئی‘ نہ جھرلو پھرا، پولنگ کی حد تک ، معاملات صاف و شفاف چلتے رہے ۔ پھر آر ٹی ایس کی صورت میں کوئی چھومنترنازل ہوا‘ پھر فارم 45کا ٹنٹناکھڑا ہوگیا اور یوں جیتے ہوئے ہار گئے اور ہارے ہوئے جیت گئے ۔ہمیشہ پولنگ کے ختم ہونے کے بعد بارہ گھنٹے کے اندر اندر نتائج آ جاتے رہے ہیں یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ 25جولائی کو ہونے والے انتخابات کے کئی نتائج ابھی تک راہ میں بھٹک رہے ہیں ۔ میاں صاحب چار دیواری میں مقید ہیں ۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ باہر کیا ہوگیا ۔ ایک بڑا طبقہ حیران ہے کہ باد مخالف کی تمام تر تُندی کے باوجود مسلم لیگ ن اتنی سیٹیں کیسے لے گئی اور کئی حلقوں میں تو شکست کا مارجن چند سو رہا۔ جبکہ ہارنے والے کے ہزاروں ووٹ مسترد ہوئے ۔ عمران خان کی تحریک انصاف بظاہر گھٹابن کر اٹھی اور آسمان پر چھا گئی۔ لیکن لاہور کے حلقہ این اے 131سے خان صاحب، خواجہ سعد رفیق کے مقابلے میں محض چند سو ووٹوں کی اکثریت سے ”جیت“ پائے ۔ یہ انہی حلقوں کی باقیات میں سے ہے جن کی بنا پر 2013کے الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے مہینوں دھرنا چلا ، خیال تھا کہ اس حلقے سے خواجہ سعد رفیق کی ضمانت ضبط ہوگی، لیکن نتیجہ کوئی قابل فخر نہیں رہا۔ یہ درست ہے کہ جیت تو جیت ہوتی ہے خواہ ایک ووٹ سے ہو لیکن اس ضمن یہ بھی تو دیکھنا پڑتا ہے کہ مقابلہ کن دو کے درمیان تھا ؟
٭....٭....٭....٭
مراد علی شاہ نے دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کی تیاری کر لی
تیاری سے کیا مراد ہے خبرمیں اس حوالے سے کچھ نہیں بتایاگیا ۔ لیکن گمان غالب یہ ہے کہ ”عالم بالا“ میں شاہ صاحب کو دوبارہ یہ منصب سونپے جانے کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔ یہاں ایسے منصب استحقاق پر نہیں بلکہ مہربانیوں اور نوازشات کے صدقے ملا کرتے ہیں ۔ ان کا وزارت اعلیٰ کے لئے پسندیدہ امیدوار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے حضرت سید قائم علی شاہ سے بھی بڑھ کر قیادت کی خدمت کی جس کے صلے میں انہیں ایک بار پھر خرقہ¿ خلافت عطا ہونے والا ہے ۔یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو بڑے نصیبے والوں کے حصہ میں آتا ہے البتہ اس دفعہ انہیںصوبے میں اپوزیشن کی صورت میں مختلف لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔صوبہ سندھ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو ورثے میں ملا ہوا تھا مگر اس دفعہ تحریک انصاف اس قلعہ میں نقب لگانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اگر ایم کیو ایم متحد رہتی اور مہاجر ووٹ تقسیم نہ ہوتا تو تحریک انصاف کو ایسی کامیابی نصیب نہ ہوتی۔ سید مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بنیں یا کوئی اور صاحب اگر اس بار کراچی اور سندھ کے مسائل حل نہ کئے گئے تو سندھ بھی پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس انجام سے بچنے کیلئے وزیراعلیٰ کو بڑی محنت کرنا پڑے گی حسن ظن ہے کہ شاہ صاحب اسی کام کیلئے اپنے آپ کو” تیار“ کر رہے ہوں گے۔
عوام میںشہباز شریف کی مقبولیت کم نہ ہو سکی، خبر
جمعرات سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب و مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف اڈیالہ جیل میں قید اپنے بھائی و مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف، مریم نوازشریف اور کیپٹن صفدر سے ملاقات کیلئے راولپنڈی کے راستے میں پٹرول پمپ پر رکے تو عملہ اور دیگر لوگوں کو شہبازشریف کو اپنے درمیان پا کر خوشگوار حیرت ہوئی، عوام نے انہیں گھیر لیا اور ان کے ساتھ ہاتھ ملایا اور سیلفیاں بنائیں۔ شہبازشریف نے اپنے دور اقتدار میں لاہور ہی نہیں، صوبے بھر میں تعمیر و ترقی کیلئے کئی میگا پراجیکٹ مکمل کئے۔ ہسپتال بنائے، دانش سکول اور ایسی ہی درسگاہیں قائم کیں ، عوامی فلاح و بہبود کے بھی کئی کام کئے۔ دور ابتلا اپنی جگہ لیکن جتنا کام یہ لوگ کر گئے ہیں ان کی جگہ لینے والوں کو اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کیلئے اس سے دگنا کام کرنا ہوگا۔ اگر مسلم لیگ ن دوبارہ اقتدار میں آتی تو ظاہر ہے کہ وہ ا پنے شروع کئے گئے تعمیر و ترقی کے منصوبوںکو جاری رکھتی مگر اب دیکھیں تحریک انصاف کہاں سے شروع کرتی ہے۔ کہیں ” ہر کہ آمد عمارت نو ساخت“ والا معاملہ نہ ہو۔ ایسا ہوا تو ملک مزید پیچھے چلا جائے گا۔ ملک کی معیشت کی حالت بہت خراب ہے۔ ملک قرضوں کے نیچے دبا پڑا ہے۔ تحریک انصاف کو معیشت بہتر بنانے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ہم تو سمجھے تھے کہ تحریک انصاف آتے ہی سب سے پہلے تو غیر ملکی بنکوں میں پڑے پاکستانیوںکے دو سو ارب ڈالر واپس لائے گی اور پھر لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی۔ لیکن خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف پہلے سے بھی بڑا کشکول بنوا رہی ہے۔ ”شریفوں“ کو اقتدار سے محروم کرنا کوئی کامیابی نہیں، اصل کامیابی یہ ہو گی کہ عام آدمی کی قسمت بھی بدلتی ہے یا نہیں یا ایک اور باری طلب کی جائے گی۔
٭....٭....٭....٭
عمران فیصلوں پر عملدرآمد نہ کراسکے تو گھر چلے جائینگے‘ اسد عمر۔
اسدصاحب! اتنا بڑا میدان مار نے کے بعد ناامیدی کی باتیں! یہ تو سراسر اپنے لیڈر پر بھروسہ نہ کرنے والی بات ہوئی کہ اگر فیصلوں پر عملدرآمد نہ کراسکے تو گھر چلے جائینگے۔ جب اوکھلی میں سر دے ہی دیا ہے تو موسلی سے کیا ڈرنا۔ ہمارا خیال ہے کہ آپ کو کچھ کچھ اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنا اتنا آسان نہیں۔ عمران خان کے فیصلوں پر عملدرآمد ہوگا یا نہیں‘ یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا البتہ آپ نے ملک کا خزانہ سنبھالنا ہے‘ یہی وہ خزانہ ہے جو سابقہ دور میں کسی نہ کسی طرح باہر منتقل ہوتا رہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ آپ اس خزانے کی کیسے حفاظت کرتے ہیں۔ اور مزہ تو تب ہے جب آپ باہر پڑا ہوا خزانہ بھی قوم کو واپس لاکر دکھا دیں۔ اسحاق ڈار شاید وہی خزانہ واپس لینے گئے تھے لیکن افسوس کہ وہ وہاں جا کر ”کھل جا سم سم“ کہنا بھول گئے ورنہ خزانہ واپس آچکا ہوتا۔ اسد صاحب گھر جانے کی بات نہ کریں‘ اگر انہیںعوام کی خدمت کا موقع مل رہا ہے تو انہیں کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ اسد صاحب اپنے مدمقابل آنیوالی مضبوط اور جارحانہ اپوزیشن سے گھبرا کر میدان چھوڑ کر گھر جانے کی بات نہ کریں۔ہماری تاریخ تو بتاتی ہے کہ ایک بار جو حکومت میں آجاتا ہے‘ وہ جتنا چاہے حکومت چلانے میں ناکام ہو جائے‘ گھر جانا پسند نہیں کرتا۔ اس کا مشاہدہ ہم پچھلے ستر سال میں کرچکے ہیںاور اب بھی دیکھ لیں جن سے وزارت چھنی ہے ‘ وہ آپے سے باہر ہوگئے۔
٭....٭....٭....٭