وشنو گپتا کوتلیہ کی ارتھ شاستر اور اس پر لکھے گئے تبصروں کے مطالعہ سے مجھے یہ آگاہی ملی کہ ازمنہ قدیم کی عرب دنیا کے فنون لطیفہ، طرز حکمرانی اور علوم کی تشکیل پر برصغیر نے گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔اس کے بعد تجارت اور جنگوں کے ذریعے یہ علوم عمر بن عبدالعزیز، اندلس کے مسلم حکمرانوں اور عباسی خلفاءکے ادوارِ حکومت میں ایرانی اور چینی مکاتبِ فکر کے ساتھ مل کر یورپ منتقل ہو گئے۔ڈسکوری چینل کے پروگرام ایشیئن سویلائزیشن ایپی سوڈز (Asian Civilization Episodes) نے یورپ کی نشاة ثانیہ پر ایشیائی تہذیبوں کے اثرات کے بارے میں پروگرام پیش کر کے اس موضوع پر جو کہ ابہام کا شکار ہے، دوبارہ توجہ دلا دی ہے۔ نیز عمران خان نے ”عمر کا قانون“ (Omer`s Law)کا جو حوالہ دیا ہے وہ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے۔
ازمنہ قدیم سے ازمنہ وسطیٰ تک، جزیرہ نمائے عرب عالمی تجارتی اور تعلیمی مرکز رہا تھا۔ مشرقی یورپ، وسط ایشیا، برصغیر اور چین سے قافلے چلتے، جواشیاءتجارت کے تبادلے کے ساتھ سیاسی نظریات اور علمی سرمایہ بھی منتقل کرتے تھے، پرتگالیوں کی آمد سے پہلے بحر ہند اور بحر روم پر عرب ملاحوں کا غلبہ تھا۔ اس دور میں فلسفہ اپنے تمام مکاتب فکر کے ساتھ ایک مشترکہ زبان جیسی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ یہ تصور عام پایا جاتا ہے کہ یونانی فلسفیوں مثلاً ارسطو اور افلاطون نے جدید فلسفے کی بنیادیں رکھیں۔ تاہم یہ تصور تاریخ سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ عربی اثرات اور یورپ میں مسلم حکمرانوں کے دور سے پہلے اور ان کے دوران دو نمایاں کام ہو چکے تھے۔ پہلا یہ کہ مختلف عیسائی فرقوں کے عرب راہب یونانی کتب کا عربی اور عبرانی زبانوں میں ترجمہ کا آغاز کر چکے تھے۔جب عباسیوں نے بغداد میںبیت الحکمة قائم کیا تو انہوں نے تمام فلسفے کو عربی زبان میں ترجمہ کرنے کا حکم دیا۔ یورپ اس دوران جنگوں میں مصروف اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ عربی، ایرانی اور نسطوری عیسائی علماءاس عظیم علمی سرمائے کے تحفظ اورپوری درستگی کے ساتھ اندراج کرنے میں مصروف تھے۔رابرٹ بریفالٹ اپنی مشہور کتاب ”دی میکنگ آف ہیومینٹی ”The Making of Humanity“ میں لکھتا ہے۔ ”بغداد“ شیراز اور قرطبہ کے بادشاہوں نے دانش وری کی ناخراب ہونے والی، پرلطف ثقافت کو اپنے درباروں میں اکٹھا کر لیا تھا جو ان کی حقیقی اور قابل فخر شان تھی کتابوں اور نباتاتی نمونوں سے لدے ہوئے قافلے بخارا سے دجلہ اور مصر سے اندلس تک سفر کرتے تھے۔ قسطنطنیہ اور ہندوستان میں کتابیں اور اساتذہ حاصل کرنے کے وفود بھیجے جاتے۔ یونانی مصنفین کی کتابوں کے مجموعے یا کسی مشہور ریاضی دان کا مطالبہ ایسے تاکید کے ساتھ کیا جاتا جیسے کوئی حکومت خراج طلب کرتی ہے۔ بعد کے ادوار میں جب یونانی مسودات کی تخریج اور استناد کی تحقیق کا آغاز ہوا تو بغداد میں کئے گئے تراجم نے بنیادی اہمیت حاصل کر لی۔چنانچہ دنیائے اسلام اور یورپ کے درمیان مباحثہ کا آغاز ہوا۔ اس سلسلے میں الکندی، ابونصر فارابی، بو علی سینا، ابن بجہ، ابن رشد اور ابن خلدون کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے کاموں اور تبصروں نے ازمنہ وسطی کے یورپی اور کیتھولک علماءکو یونانی کتب کو یورپی زبانوں میں ترجمہ کرنے میں مدد دی۔جدید فلسفہ میں ابن رشد کو ارسطو کے فلسفے کا سب سے بڑا مبصر اور داعی سمجھا جاتا ہے۔ ابن رشد بو علی سینا پر اس لحاظ سے فوقیت رکھتا ہے کہ اس نے عقلی فلسفہ میں ابن سینا کی اغلاط کی تصحیح کی تھی۔ ابن رشد اور غزالی دو متضاد مکاتب فکر کے نمائندہ ہیں۔ جن میں ابن رشد سبقت رکھتا ہے۔ عیسائی فاتحین نے جب اندلس کے مسلمانوں کے علمی سرمائے کو آگ لگائی تو اس میں ابن رشد کی بہت سی انمول کتابیں بھی ضائع ہو گئیں۔ ابن رشد کی کتابوں نے عیسائی یورپ پر مستقل اثرات مرتب کئے۔ آج بھی مغرب میں ابن رشد مقبول ترین مسلم فلسفی ہے۔ وہ ایک فلکیات دان بھی تھا۔ اس نے کروی حرکت پر مقالہ بھی لکھا۔ شمسی دھبوں کی دریافت کا سہرا بھی اسی کے سر جاتا ہے۔ اس نے بطلیموس کی کتاب مجسطی کی تلخیص بھی کی۔ جس کا عبرانی ترجمہ 1231 میں یعقوب اناطولی نے کیا۔جاری ہے
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024