جمعۃ المبارک‘  12  شوال  1446ھ ‘  11 اپریل 2025 ء

Apr 11, 2025

پینے کے صاف پانی کا ضیاع روکنے کیلئے بھاری جرمانہ اور سزا ہوگی۔
یہ اچھی پیش رفت ہو سکتی ہے‘ پینے کے صاف پانی کو بچانے کیلئے اس وقت پوری دنیا پینے کے پانی کے تحفظ کیلئے کوشاں ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں اور بے جا پانی ضائع کرنے کی وجہ سے بارش اور برف باری کی کمی نے زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گرا دی ہے اور دریا و ندی نالے سوکھ رہے ہیں۔ اس وقت بدترین آبی بحران کے شکار ممالک میں خیر سے ہم کسی سے کم نہیں‘ بدترین متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔ وہ بھی پہلے دس ممالک میں۔ اب موجودہ حکومت کو پانی کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے کا خیال آیا ہے‘ جو درست ہے ورنہ قانون تو بنتے رہتے ہیں‘ اصل کام ان پر عمل کرانا ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے ہم سن رہے ہیں کہ پنجاب میں گھر‘ دکان‘ گاڑیاں‘ سڑکیں‘ گلیاں دھونے کیلئے پینے والے پانی کا استعمال ممنوع قرار دیا جا چکا ہے‘ اس پر جرمانہ اور سزا کا بھی کہا گیا مگر ہمارے بے فکر عوام بری طرح صاف پانی ضائع کرنے میں سب سے اول ہیں۔ نہانا دھونا ہو یا فرش اور گاڑیاں صاف کرنا ہو، یہی نایاب قیمتی پینے کے صاف پانی کو بے دردی سے ضائع کیا جاتا ہے۔ اب حکومت نے سختی سے ایسا کرنے والوں کو بھاری جرمانہ اور سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے اور عوام سے کہا ہے کہ جہاں بھی کوئی ایسا کرتا پایا جائے‘ اسکی فوری اطلاع حکومت کے جاری کردہ نمبر پر دیں۔ اس طرح پانی کے میٹر نصب کرنے کی باتیں بھی عرصہ دراز سے سنتے آرہے ہیں۔ اب یہ بھی لگنا ضروری ہیں تاکہ جو جتنا پانی استعمال کریگا‘ اتنا بل دیگا۔ اس طرح بھی پانی کے ضیاع کو روکا جا سکتا ہے۔ ورنہ پانی کی بوند بوند پر ہم خون کی ندیاں بہاتے پھریں گے۔ یقین نہیں تو دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ ہی دیکھ لیں کہ صوبے ایک دوسرے کیخلاف برسر پیکار ہیں۔ بلوچستان میں تو خطرہ ہے‘ آبی قلت کی وجہ سے نقل مکانی نہ شروع ہو جائے۔ یہی حالات رہے تو سندھ‘ پنجاب کے علاوہ خیبر پی کے میں بھی پانی پینے کیلئے سونے کے بھا? دستیاب ہوگا۔ 
کمبوڈیا میں چوہے نے 100 بارودی سرنگوں کا سراغ لگا کر ورلڈ گنیز بک میں اپنا نام درج کرالیا۔
یہ ہوتی ہے ٹیلنٹ کی قدر‘ پوری دنیا میں ایسے کتوں‘ مچھلیوں‘ بندروں کو خاص طور پر خطرناک کام سکھایا جاتا ہے جو انسانوں کیلئے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ مگر ان جانوروں کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے‘ اس لئے یہ آسانی سے بارودی سرنگوں کا سراغ لگا لیتے ہیں۔ دنیا بھر میں کشیدگی والے علاقوں میں سب سے زیادہ نقصان ان بارودی سرنگوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اب اس چوہے نے ایک سو سے زیادہ بارودی سرنگوں کا سراغ لگا کر ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اب سمجھ نہیں آرہا اسکی مبارکباد‘ اس جینئس چوہے کو دی جائے یا وہاں کی حکومت کو جسں نے چوہے کو بھی ایسا ماہر بنا دیا۔ اب اسے ناصرف گولڈ میڈل دیا گیا بلکہ گنیز بک میں اس کا نام بھی درج ہو گیا۔ اسکے برعکس ایک ہمارے چوہے ہیں‘ انہیں بس لحاف‘ کمبل اور کاغذ کترنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ گزشتہ دنوں سکردو کے ایک غریب کی اپیل شائع ہوئی ہے کہ اسکی ساری زندگی کی جمع پونجی سوا لاکھ روپے جو گھر میں رکھے گئے تھے‘ اسکے کچھ حصے چوہے کتر گئے ہیں۔ اب انہیں کیسے اور کہاں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے بنک اس بارے میں کوئی نئی پالیسی بنائے گا۔ بہرحال ہمارے ہاں ایک اور قسم کے چوہے بھی پائے جاتے ہیں جنہیں فارسی میں ’’موش کوہی ‘‘ یعنی پہاڑی چوہے کہا جاتا ہے۔ یہ کمبخت بارودی سرنگوں کا سراغ نہیں لگاتے بلکہ انہیں بچھا کر سکیورٹی اور حکومتی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان کو اب گولڈ میڈل یا انعام تو نہیں دیا جا سکتا‘ اس لئے انہیں ویسے ہی مارا جاتا ہے جیسے چوہے مار دوائی کھلا کر گھروں اور دکانوں کے نقصان دہ چوہے کو مارا جاتا ہے اور انکی لاشیں یہاں وہاں پڑی ملتی ہیں۔

کراچی کے بعد میرپور خاص میں غیرملکی ریسٹورنٹ میں توڑ پھوڑ۔ 
غزہ میں اسرائیلی یعنی یہودی مظالم کے بعد دنیا بھر میں یہودی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ ایسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے جو یہودی ملٹی نیشنل کمپنیاں تیار کرتی ہیں‘ دراصل لوگ اسرائیلی مظالم سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہ کام پرامن اور منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور ہمارے ہاں روایت کے مطابق جذباتیت‘ غم و غصہ کے ساتھ توڑ پھوڑ، لوٹ مار‘ آتشزدگی شامل ہے۔ بھٹو کیخلاف تحریک میں مظاہرین جو اسلامی نظام کے محض لگاتے تھے‘ شراب کی دکانوں پر حملہ آور ہوتے‘ توڑ پھوڑ کے ساتھ دروغ برگردن راوی ہزاروں بوتلیں شراب اٹھا کر ساتھ لے جاتے تھے‘ مال غنیمت کے طور پر اور پھر یار دوست مل کر پارٹی کرتے‘ اسی طرح ایک اور احتجاجی تحریک میں مظاہرین نے اسی طرح غیرملکی فوڈ کمپنیوں کے مراکز پر حملہ کیا توڑ پھوڑ کے بعد لوٹ مار کرتے ہوئے ہزاروں برگر‘ سینڈوچ اور دیگر کھانے کی اشیاء کے ساتھ کوک کی بوتلیں لے گئے‘ جو بعد میں آرام سے بیٹھ کر سڑکوں (مال روڈ) پر کھاتے رہے‘ یہ بائیکاٹ کا کون سا طریقہ ہے‘ یہ تو سیدھی لوٹ مار کی واردات ہے۔ خیر ایسا ہوتا رہتا ہے ہمارے ہاں۔ اب گزشتہ روز کراچی کے بعد میرپورخاص میں ایک غیرملکی یہودی فوڈ کمپنی کے ریسٹورنٹ پر بھی غزہ مارچ کے بعد مظاہرین ٹوٹ پڑے اور توڑ پھوڑ کے بعد انہی کے برگر اور کوک کی بوتلوں سے پیٹ کی آگ اور پیاس بجھائی۔ بائیکاٹ تو یوں ہونا چاہیے کہ دکانیں کھلی رہیں‘ ریسٹورنٹ کھلے رہے مگر کوئی بھی ممنوع اشیاء کی خریداری نہ کرے۔ اسرائیلیوں کی کمپنیوں کی اشیاء کو ہاتھ نہ لگائے‘ مزہ پھر آئیگا‘ لوٹ مار سے سوائے پاکستانی پراپرٹی کے نقصان کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ ہم اس بائیکاٹ مہم میں کتنے سنجیدہ ہیں‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مظاہرین اور مقررین کے ہاتھوں میں جو پانی کی بوتلیں تھیں‘ وہ انہی غیرملکی کمپنیوں کی تھیں جن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جارہا تھا۔ ہماری دوغلی پالیسی دیکھیں یہی ریسٹورنٹ لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ کہیں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ 
وطن واپس جانے والے افغان مہاجرین خوش نہیں‘ افسردہ ہیں۔ 
بحیثیت مسلمان دل گرفتہ ہم بھی ہیں۔ برسوں کے یارانے ٹوٹ رہے ہیں۔ مگر کیا کریں‘ چند بدنہاد مفسدوں کی وجہ سے لاکھوں افغان مہاجرین کو اگر پاکستان سے نکالے جانے پر وہ لوگ جو 35 چالیس سال سے رہ رہے تھے‘ کاروبار کر رہے تھے‘ محنت مزدوری کر رہے تھے‘ افسردہ ہیں‘ رو رہے ہیں‘ تو اس کی ذمہ داری ان مہاجرین کے بڑوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے ان بے لگام مفسدوں کو لگام کیوں نہ دی جو جرائم میں ملوث تھے۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد ملک بھر میں جہاں چاہتے جا کر رہائش اختیار کرتے‘ انہوں نے اپنی کچی آبادیاں‘ کالونیاں بنا رکھی تھیں‘ جہاں کوئی دوسرا گھس نہیں سکتا تھا۔ ان غیرقانونی آبادیوں میں چند فیصد ہی سہی‘ فسادی جرائم پیشہ افراد کیا کچھ نہیں کرتے تھے۔ اسلحہ‘ منشیات‘ اغواء ، بھتہ خوری‘ قتل‘ ڈکیتی‘ چوری کی منظم وارداتوں میں ملوث ایسے گروہ کے براہ راست افغانستان میں موجود کریمنل گروپوں سے رابطے رہتے تھے۔ بارڈر بھی نرم (سافٹ) تھا‘ مہاجرین جو چاہتے افغانستان سے لاتے، جو چاہتے پاکستان سے لے کر جاتے تھے۔ چمن تا طورخم یہ طویل بارڈر سمگلروں کی جنت بن گیا‘ بے شک اس میں ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سرحدی محافظ بھی قصوار تھے‘ پاکستان کے بعد بڑی تعداد میں مہاجرین ایران میں تھے‘ جو مخصوص کیمپوں میں رہتے تھے اور حکومتی اجازت سے شہروں میں جا کر محنت مزدوری کرتے تھے‘ یہی وجہ ہے کہ ایران نے آسانی سے گیارہ لاکھ مہاجرین کو واپس بھیج دیا۔ اس پر کسی افغان ادارے‘ رہنماء یا حکومت نے چوں تک نہیں کی۔ گزشتہ روز مہاجرین کے جانے کے بعد علاقے کی انتظامیہ نے بتایا کہ وہاں جرائم کم ہو گئے‘ سب ایک جیسے نہیں لاکھوں افغان مہاجر پاکستان سے محبت کرتے ہیں مگر شر یہاں ہمیشہ خیر پر غالب رہا ہے۔ قانون‘ آئین‘ پرچم اور سرحدوں کی توہین میں پوری دنیا میں یہی افغان مہاجرین پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اس پر 
یہ کیا کہ تم نے جفا سے بھی ہاتھ کھنیچ لیا
میری وفائوں کا کچھ تو صلہ دیا ہوتا 
کہتے ہوئے ہم کب تک خاموش تماشا دیکھتے رہتے۔ دنیا دیکھ رہی ہے‘ خالی ہاتھ گدھوں‘ خچروں اونٹوں پر چند سامان لے کر آنے والے ٹرکوں میں سامان بھر بھر کر واپس جا رہے ہیں۔ خالی ہاتھ نہیں جبکہ دوسرے ممالک سے واپس جانے والوں کے ہاتھوں میں بس ایک بیگ ہی نظر آتا ہے۔ 

مزیدخبریں