کیا امریکہ بھارت کے روسی میزائل کے حصول پہ پابندیاں عائد کرے گا؟
بھارت اور امریکہ ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں لیکن کیاامریکہ بھارت کوروسی دفاعی نظام کے ایس 2017میزائلوں کے بھارتی منصوبے پرپابندیاںٰ عاید کرے گا؟ امریکی کانگریس نے 200میں روس سے فوجی سازوسامان خریدنے یا ایران یا شمالی کوریا کے ساتھ لین دین کرنے والے کسی بھی ملک پرپابندیاںعائد کا قانون منظور کیا تھا۔ گشتہ برس نیٹو کے اتحادی ترکی پہ روس سے یہی میزائل کے حصول پہ پابندیاں عاید کی جا چکی ہیں۔امریکہ اور بھارت کے قریبی تعلقات کے باوجود ، امریکہ نے بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ ایس 400 کی خریداری میں آگے بڑھا تو وہ پابندیاں عائد کرے گا۔ جنوری 2021 میں ، امریکہ نے بھارت اور روس کے مابین معاہدے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور انتباہ جاری کیا تھا۔مزید برآں مارچ 2021 میں امریکی وزیر دفاع ، لائیڈ آسٹن نینئی دہلی کے دورے کے موقع پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ایس 400 ایک جدید میزائل دفاعی نظام ہے ، جس میں راڈار سسٹم اور میزائل پیڈ شامل ہیں۔ لانگ رینج نگرانی کا راڈاردشمن کو ٹریک کرتا ہے اور کمانڈ گاڑی سے متعلق معلومات کو جوڑتا ہے ، جو ممکنہ اہداف کا اندازہ کرتا ہے۔ مداخلت کرنے والے دشمن کی نشاندہی کرنے کے بعد ، کمانڈ گاڑی میزائل لانچ کرنے کا حکم دیتی ہیجو سطح سیفظا میں مار کرنے میزائل لانچ کرتا ہے۔ میزائل ڈیفنس سسٹم کی 400 کلومیٹر رینج ہے اور وہ بیک وقت 80 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہیاور انہیںتباہ کرسکتا ہیدفاعی سسٹم کو شامل کرنے سے بھارت کے فضائی دفاعی صلاحیت میں بھی زبردست اضافہ ہوگا۔ بھارت نے بلندی سیمداخلت کرنے والے میزائل کے لئے پرتھوی ایئر ڈیفنس پر مبنی اور نیچی سطح سے مداخلت سے نمٹنے کے لئے جدید ایئر ڈیفنس سسٹم پر مبنی اپنا میزائل دفاعی نظام پہلے ہی فعال ہے جو جو دو بڑے شہروں نئی دہلی اور ممبئی کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ اگر روسی میزایل سسٹم بھی بھارت حاصل کر لیتا ہے تو اس کے پاس مضبوط دفاعی نظام ہو گا جس کے بل بوتے وہ پاکستان کے خلاف اس قسم کی جنگی حکمت عملی اختیار کر سکتا ہے جس قسم کی اس نے فروری2017میں کی تھی جسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔روسی میزائل کے حصول سے خطے میں طاقت کا عدم توازن پیدا ہو گا۔امریکہ خطے میں اسلحہ کے عدم توازن کا ادراک نہیں کر رہا ہے لیکن وہ روس کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے کا خواہاں ہے ، اور اسے دفاعی سازوسامان فروخت کرنے کے مواقع سے روکنا چاہتا ہے۔ 20 مارچ کو اپنے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے روسی ایس -400 کے حصول کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے امریکی سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کا مرکزی محرک یہی تھا کہ بھارت اس سودے سے باز رہے۔ جب براہ راست ان سے سوال پوچھا گیا کہ امریکہ بھارت کے خلاف پابندیوں کو عاید کرنے سے متعلق سوچ رہا ہے؟تو انکا جواب یہ تھا کہ اس کا انحصار بھارت کو اس نظام کی فراہمی پرہے۔ جنوری 2021 میں ، دہلی میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے بھارت کے ایس 400 منصوبوں پر اسی طرح کی وارننگ جاری کی تھی۔ انہوں نے تمام امریکی اتحادیوں اور شراکت داروں کو خبردار کیا کہ وہ روس کے ساتھ لین دین کو چھوڑ دیں۔ بھارت نے دلیل پیش کی کہ اس نے یہ سودا امریکی قانون کے نافذ ہونے سے قبل کیا تھا۔ روسی صدر، ولادیمیر پوتن، اور بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی کے درمیان 5 اکتوبر، 2018 کو 5.5 بلین امریکی ڈالر کی لاگت پانچ ایس -400 سسٹم کے لئے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ تمام پانچ ایس 400 رجمنٹ اکتوبر 2020 سے اپریل 2023 کے درمیان فراہم کی جانے والی تھیں۔ ایس 400 دنیا کے جدید ترین فضائی دفاعی نظام میں سے ایک ہے اور بھارت نے 2019 میں اس کے لئے 800 ملین ڈالر کی ادائیگی کی ہے۔ توقع ہے کہ 2021 کے اختتام تک 400 میزائل بیٹریوں کا پہلا سیٹ مل جائے گا۔ واشنگٹن ڈی سی کے ساتھ تعلقات میں بہتری آنے کے بعد سے، نئی دہلی نے ہتھیاروں کے نظام کے حصول کے لئے امریکہ اور اسرائیل سے قربت حاصل کرلی ہے۔ اس سے قبل بھارت کا اسلحے کے حصول کا لیے مکمل دارومدار روس پہ تھا۔ ماضی قریب میں، امریکہ بھارت کوسب سے بڑا اسلحہ بیچنے والا ملک بن گیا ہے۔بھارت کا منصوبہ ہے کہ وہ امریکہ سے مسلح ڈرون خریدنے کے ساتھ ساتھ فضائیہ کے لئے ڈیڑھ سو سے زیادہ جدید ترین جنگی طیاروں کا ایک بڑا آرڈر اوربحریہ کی روایتی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدد لے گا۔ تاہم، بھارت کی ایس 400 خریداری نے ابھرتے ہوئے بھارتی-امریکی اسٹریٹجک شراکت داری پر اثرڈال دیا ہے۔ سبکدوش ہونے والے ٹرمپ انتظامیہ اور موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ دونوں ہی نے یعنی امریکی عہدیداروں نے بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ روسی معاہدے پر پابندیاں عائد ہوجائیں گی۔اس وقت امریکہ بھارت پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ معاہدہ ترک کردے جبکہ مؤخر الذکر نے اس سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا ہے۔ سی اے اے ٹی ایس اے قانون کے تحت بھارت کو ایس 400 کی خریداری کے لئے دبائو اس لیے بڑھ گیا کہ امریکہ کے حلیف ترکی کے خلاف پابندیاں عاید کر کے ایک مثال قائم کردی گئی ہے- اس کے باوجود زمینی حقائق کے مطابق اغلب ہے کہ امریکہ کو روسی ایس 400 کی خریداری کے لییبھارت کو منظوری دینی ہوگی۔ امریکہ کے سامنے جن تحفظات کا سامنا ہے وہ یہ ہیں کہ بھارت امریکہ کی ہند بحر الکاہل کی حکمت عملی کا سنگ بنیاد ہے اور خطے میں چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے کواڈ کا ایک بانی ممبربھی۔علاوہ ازیں بھارت پہ پابندیاں لگانے سے امریکہ اور بھارت کے درمیان مستقبل میں ہتھیاروں کے لین دین کو بھی خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا جیسے جدیدطرزکے لڑاکا طیارے اور مسلح ڈرون۔ کورونا وبا کی وجہ سے امریکی معیشت کو خسارے کا سامنا ہے وہ کی منڈی کسی حال میں کھونا پسند نہیں کرے گا۔