ایک دفعہ انیسویں صدی میں جب منافع خوری اورمافیاز کے چنگل میں پھنسے ہوئے انسان کی زندگی بلبلا اٹھی اورمنافع خوری کے بازار میں انسان کا ضمیر ارزاں ہوگیا تو جدید اشتراکیت کے بانی کارل مارکس نے اس سوال پر غور کرتے ہوے دعوی کیا کہ مثالی معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ اقتدار پر ایسا شخص ہو جو عوام کے مسائل سمجھتا ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پرولتاریہ ہوتاکہ وہ عوام کا دکھ سمجھ سکے اور مافیاز اور منافع خوری کو ختم کرنے کے لئے دلیرانہ قدم اٹھائے افلاطون نے اس سوال کو اس طرح اٹھایا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں جذبہ حب الوطنی کو کیسے فروغ دیا جائے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہہمارے معاشرے کی جڑوں میں پھیلے ناسور کو ختم کرنے کے لئے وزیراعظم نے نے جو قدم اٹھیایا ہے وہ ریاست کو کس حد تک مضبوط کریگا ماضی میں ان مافیاز کے سدباب کے لئے فیروز خان نون کے دور میں دروازہ بند کرنے کی مہم اسی کاشاخسانہ تھی لیکن اسکے اثرات سامنے نہ آسکے کیونکہ ان مافیاز کی جڑیں ہمیشہ ایوانوں تک تھیں حمودالرحمن کمیشن اور اس طرح کے کئی کمیشن خاطرخواہ نتائج نہ لاسکے کیونکہ سیاستدانوں کو کلین چٹ ملتی رہی ہمارے ہاں سالہاسال سے ان مافیاز نے پنجے گاڑ رکھے ہیں جس کے اثرات مصنوعی قلت ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کی صورت میں ہوا اور غریب کا خون تک نچوڑ لیا گیا وزیراعظم درحقیقت دو مسائل سے نبردآزما ہیں۔ ایک طرف تو کورونا سے نمٹنا ہے اور دوسری طرف وہ مافیا ہے جو آٹا گندم اور چینی کی مصنوی قلت کے ذمہ دار ہیں اگر بنظرغائر دیکھا جائے تو وزرا کی اکھاڑ پچھار اور مصنوعی قلت پیدا کر نے والے عناصر کو بے نقاب کرنا ان کے دلیرانہ اقدام کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ ہماری سیاست میں کبھی ایسا موڑ نہیں آیا کہ یہ جراتمندانہ قدم اٹھایا گیا ہو اور نہ ہی قرار واقعی سزائیں دی گئی ہوں وزیراعظم نے بارہا اپنے خطاب میں کہا ہے کہ وہ چوروں کو نہیں چھوڑیں گے۔
وزیراعظم کا یہ اقدام غریب عوام سے کئے گئے وعدے کا ایفا ہے۔ہمیں اسوقت ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں بروقت اور بہتر فیصلہ سازی یقینا پاکستان کی سیاست پر اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے جسکا کم از کم اپوزیشن کا سراہا جانا ناگزیر ہے یقینا اان اقدامات سے ہمارا شعور اس سیاسی شعور میں داخل ہوگا جس کی بنیاد قائد نے رکھی کنفیوشس کا مشہور مقولہ ہے کہ ازمنہ قدیم کے حکمران جب سلطنت کے نظام کی درستگی چاہتے تھے تو عوام کے مفاد کے پیش نظر کڑے فیصلوں سے دریغ نہ کرتے تھے واجد ضیا کی سربراہی میں تیار کی گئی رپورٹ یہ اعترف کر رہی ہے کہعمران خان نے دوستوں کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان مافیاز کو سزا ایک نء تاریخ رقم کر پائے گی تو یقینا جو کام پچھلے ادوار میں نہیں ہوا یہ رپورٹ نئے پاکستان کی بنیاد رکھے گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38