یوں تو پاکستان کی معاشی، معاشرتی اور اقتصادی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کسی بھی شعبہ میں تاوقتیکہ بہتری کے آثار ابھی تک تو نمایاں نہیں ہیں۔ چین کے سفارتی حلقوںکی جانب سے بھی پاکستان کی اس خراب تر اقتصادی حالت پر گہری تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ چین نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ پاکستان اقتصادیات کے حوالے سے جو اقدامات کر رہا ہے وہ محض وقتی ہیں۔ جن کا دیرپا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور وقتی اقدامات سے بہتری لانا ممکن نہیں ہے۔ چین کے ایک اعلیٰ اقتصادی ماہر ٹانگ تیانرو نے ایک مضمون میں کچھ خدشات اور نظریات کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں مالی اور ٹیکس تناسب میں اضافے، پیداواری لاگت میں اضافے سے ٹیرف بڑھایا جا رہا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستان کے روپے میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ کی طلب کمزور جبکہ افراطِ زر کی شرح اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورتِحال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ چند کاروباری ادارے پاکستان کو مارکیٹ سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ پاکستان اس وقت اقتصادی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ اس صورتِحال سے نمٹنے کیلئے قلیل مدتی منصوبہ جات کی اشد ضرورت ہے۔ طویل مدتی پالیسیاں اس کا حل نہیں ہیں۔ ان حالات میں بھی سی پیک منصوبہ ایسا لائحہ عمل ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ گو کہ جب سی پیک شروع ہوا تو بہت سے لوگوں نے اس پر اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا۔ بلکہ مخالفت تک ہوئی۔ اگرچہ بعد میں سب نے اس کے دیرپا فوائد کو تسلیم بھی کیا۔ اب بھی حالات اس نہج پر ہیں کہ اس واحد راہ سے اقتصادی حالات کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی کشیدگی کا جاری رہنا، امریکہ ایران جنگی خطرات، پاکستان میں حاکمیت کا غاصبانہ نظام اور ملکی معیشت کا جمود اور اقتصادی تباہ حالی کے درپیش خطرات مستقبل میں بے پناہ مسائل اور خطرات کی نوید سنا رہے ہیں۔ کورونا کی موجودہ صورتِ حال نے ان تمام مسائل کو پہلے سے سو گنا بڑھا دیا ہے۔ گرتی ہوئی معیشت کو ایک اور زور دار جھٹکا لگ چکا ہے اور اب نجانے اس کو سنبھالنے کیلئے کیا کیا جتن کرنے پڑیں گے۔ مسائل کا آغاز تو کب کا ہو چکا تھا لیکن نئی صورتِحال نے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ اگرچہ اس وقت ایران امریکہ جنگی حالات بھی کچھ دیر کیلئے خاموشی اختیار کر چکے ہیں لیکن حالات سازگار ہو جانے کے بعد نجانے اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کیونکہ امریکہ، ایران کی جنگی کشیدگی ایسی نظر تو نہیں آتی جو جلد یا بدیر آسانی سے ختم ہو پائے گی۔ جبکہ چین وہ دوست ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ خطہ میں امن و امان کی حفاظت کیلئے حتی الامکان اقدامات کی کوششیں جاری رکھتا ہے۔ چین نے دنیا کے مختلف خطوں کے درمیان اقتصادی راستوں کی تعمیر کے نظام کی حفاظت کیلئے اپنی فوج کو بھی حرکت میں رکھا ہوا ہے۔ چین اقتصادی و فوجی میدان میں انتہائی تیزی سے ترقی کی منازل طے کر چکا ہے بلکہ دوسرے علاقوں میں کئی اقتصادی فورم قائم کرتے ہوئے ہٹ دھرمی کا رویہ اپنانے کی بجائے کنفیوشس کی دانش مندی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ چین نے ہمیشہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام پر توجہ دی ہے۔ اگرچہ انڈیا نے عشروں تک چین کے ساتھ دشمنی کا رویہ اختیار کیے رکھا جنگی جھڑپیں بھی جاری رکھیں۔ پاکستان اور چین دوستی کے خلاف زہر بھی اُگلتے رہے لیکن ان سب کے باوجود آج چین اور انڈیا کے تعلقات باہمی تعاون پر استوار نظر آتے ہیں۔ اندرونی کہانی جو بھی ہو لیکن بیرونی معاملات کافی حد تک کنٹرول میں ہیں۔ اس تمام بحث کا لب لباب یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اسکے رویے اور پالیسیاں اہم کردار ادا کیا کرتے ہیں۔ چین کی مثال اسی لیے دے رہی ہوں کہ آج اگر ہر لحاظ سے سپر پاور کا کردار ادا کر رہا ہے۔ باقی تمام شعبہ جات کے علاوہ وہ اقتصادی راہداری پر تیزی سے منازل طے کرتا چلا جا رہا ہے تو اس کی حکمت عملی اور سیاسی تدبر ہے جس کی شاید پاکستان میں شدید کمی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے عوامی نمائندگی کے حق کے ناجائز فوائد کا استعمال کرتے ہوئے ملک کو من مانے طور پر چلایا جا رہا ہے۔ ملک کو چلانا یہاں استعمال کرنا بھی مجھے عجیب سا ہی لگ رہا ہے۔ کیا واقعی پاکستان کو چلایا جا رہا ہے؟ کیونکہ چلنا تو آگے بڑھنے کی نشانی ہے لیکن یہاںتو ہرطرف جمود طاری ہے۔ ان تمام حقائق سے نہ صرف عوام بھی باخبر ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی پریشان ہے۔ کیوں کہ کسی بھی ملک میں عوامی رائے کے برعکس فیصلوں کے جبر کی بنیاد پر نفاذ، سیاسی انتشار اور غیریقینی صورتِحال اقتصادی نظام کو تباہ کر دینے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ کیا حالات اب بھی ایسے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے مخالفت کو جاری و ساری رکھیں اور باقی تمام معاملات کو بالائے طاق رکھ دیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024