سابقہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے، گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم مسلمان ہیں، ہمارا ایمان ہے زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جو بھی آیا اُس نے لوٹ کر واپس جانا ہے۔ ازل سے یہ سلسلہ جاری ہے، قیامت تک جاری رہے گا۔ اپنے آس پاس نظر دوڑائیے ہمارے باپ دادا سب چلے گئے۔ کوئی صبح کوئی شام جا رہا ہے۔ اپنے خالقِ حقیقی کے دیدار کے لیے مومن کی رُوح بے چین رہتی ہے، تو ’’کرونا‘‘ سے کیا ڈرنا؟ ہمارا دین تو اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ ہمیں چیونٹی کاٹے یا اگر ایک بار بھی بخار ہو جائے تو اُس کے بدلے ہمارے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ کسی وبا سے موت آئے تو شہید کا درجہ ملتا ہے تو پھر اللہ پر ایمان و یقین کامل رکھیئے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اُس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اور فرماتا ہے کہ میری رحمت سے نااُمید نہ ہونا۔ دوستو! زندگی ایک نعمت اور آزمائش ہے، دوسروں کومحبتیں ،راحتیں بانٹنے کا نام زندگی ہے ؎
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مُردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
’’کرونا‘‘ پاکستان میں لایا گیا ہے۔ چین سے نہیں آیا، چین والوں نے ہمارے طلبہ کو روکے رکھا ۔ یہاں بھی اُنہوں نے دوستی کا حق نبھایا۔ ابھی بھی ہمارا ساتھ دینے میں مگن ہیں۔ ایران میں جب نمودار ہوا تو وہ ہمارا دوست اسلامی ملک ہے تو حدیث پاک کے مطابق ہمارے زائرین کو اُدھر روک لیا جاتا۔ مگر بدقسمتی سے یہ بڑی سرعت کے ساتھ پُوری دنیا میں پھیل گیا۔ حوصلہ رکھیئے بس ہمیں اپنا اپنا محاسبہ کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آدم ؑ سے ہمیں تخلیق کیا، ہمارے قبیلے بنائے تاکہ ہم ایک دوسرے کو پہچان سکیں۔ میاں بیوی، بہن بھائی اور والدین جیسے خوبصورت مقدس رشتے بنائے۔ ہم پر حقوق وفرائض عائد کیے مگر ہم نے اس عارضی دُنیا کی رنگینیوں میں کھو کر سب کچھ بُھلا دیا۔ جن رشتوں کی بنیاد ادب و احترام اور محبت و خلوص بننا تھی آج ہم نے اُن کی بنیاد ’’مفادات‘‘ پر رکھ دی۔ لالچ و طمع اور جھوٹی شان و شوکت میں ہم والدین کے تقدس کو بھی بُھول گئے اور ’’محبت‘‘ کی بنیاد بھی جھوٹ، فریب اور ریاکاری پر رکھ دی۔ آج ’’محبت‘‘ کی بنیاد یہ ہو گئی ہے ؎ ہتھ کار وَل تے دِل یار وَل۔ اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی بُھلا بیٹھے۔ ریاکاری اور’’مفادات‘‘ نے ہمیں برباد کر دیا ہے۔ آئیے اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کریں جو ناراض ہیں اُنکے گھروں میں جا کر معافی مانگیں، صِلہ رحمی کو اپنائیں۔ کرونا کے ایک جھٹکے نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ نفسانفسی کا عالم ہو گیا ہے۔ ہر کوئی اپنے لیے متفکر ہے۔ آئیے اللہ کریم کے آگے خلوص کے ساتھ سجدہ ریزہو جائیں۔ وہ رحیم ہے غفار ہے، کریم ہے ہماری مائوں سے بھی ستر گنا زیادہ ہمیں پیار کرتا ہے۔ جب ہماری مائیں ہمیں پریشان نہیں دیکھ سکتیں تو کیا ہمارا خالق حقیقی ہمیں تکلیف میں برداشت کرے گا؟ قطعاً نہیں، آئیے بے حیائی، فحاشی اور ’’ماڈرنزم‘‘ نے جس گند میں ہمیں پھینک دیا ہے اُس سے نکلنے کی سعی تو کریں۔ ہم ایک قدم اپنے اللہ کی طرف جائیں گے وہ دس قدم ہماری طرف آئے گا۔ ’’کرونا‘‘ تو ایک معمولی سا جھٹکا ہے، اللہ اپنے بھٹکے ہوئے بندوں کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتا ہے۔ آج تمام نام نہاد سُپر طاقتیں ایک چھوٹے سے وائرس کے سامنے ڈھیر ہو چکی ہیں۔ بے شک ہمارا اللہ ہر چیزپر قادر ہے۔ سب اُس کے آگے بے بس، مجبور، لاچار اور عاجز ہیں۔ دوستو! غور فرمائیے کینسر سب سے زیادہ خوفناک ہے مگر علاج اس کا ہر امیر غریب کے اختیار میں ہے۔ سوچیئے اس کے علاج میں ایک پیسہ بھی خرچہ نہیں آتا، بس اپنے اپنے گھروں میں رہنا ہے۔ کسی دوسرے سے ہاتھ نہیں ملانا، گلے نہیں ملنا، ایک دوسرے کے درمیان فاصلہ رکھنا ہے۔ کچھ عرصہ کے لیے تنہائی میں رہ لیجیے ، شاید مرزا غالبؔ نے انہی حالات کے لیے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ ؎
رہیے اَب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سُخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بس تنہائی میں رہیئے اور اپنے اللہ سے لَو لگائیے، سب کچھ بہتر اور ٹھیک ہو جائے گا۔ ہماری نیک تمنائیں اور آرزوئیں ان شاء اللہ تعالیٰ ہماری زندگی میں ہی پوری ہوں گی۔ بس کچھ عرصہ سب سے ’’علیحدہ‘‘ ہو کر اپنے خالق کو راضی کر لیں کیوں کہ ؎
اصل تو اللہ سے لگاوٹ ہے
باقی جو کچھ ہے بناوٹ ہے
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38