ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہے، اگر لوگوں کو جلد انصاف فراہم نہیں کریں گے تو لوگ اس شعبہ سے بدظن ہوتے جا رہے ہیں : چیف جسٹس
کوئٹہ : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ مقدمہ بازی ہمارے معاشرے کی بیماری ہے۔ جیسے جسم کی بیماری ہوتی ہے انسان بیمار ہوتا ہے اور اس کو ٹھیک کرنے کے لئے سب سے بڑا ٹول ایک ڈاکٹر کا ہے جس کو مسیحا کہتے ہیں۔ ہم مقننہ نہیں ہیں ہم قانون سازی نہیں کر سکتے ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں کہ ہم 1972ء، 1984ءکے اینگلو سیکسن لاز جو یہاں رائج ہیں ان کو تبدیل کر سکیں۔ ہمیں انہی قوانین کو نافذ کرنا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ کئی مواقعوں پر 30,30 اور 40,40 سال لوگ مقدمہ بازی میں پھنسے رہتے ہیں کم از کم ان میں ایک تو مظلوم ہیں جس کا استحصال ہو رہا ہے۔اس کا کیا قصور ہے اس نے کیا گناہ کیا ہے۔ جس کا حق مارا گیا ہے اور اپنے حق کے حصول کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے اور اسے کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے ۔میں ذمہ دار ہوں بطور قاضی القضاد اور آپ ذمہ دار ہیں۔ بطور چیف جسٹس ہائیکورٹ، ضلع کے سیشن جج ہونے کے ناطے سول جج اور جوڈیشل آفیسر ہونے کے لحاظ سے آپ ذمہ دار ہیں۔ ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہے۔ اگر آپ اپنے گھر کو درست نہیں کرینگے اور لوگوں کو جلد انصاف فراہم نہیں کریں گے تو لوگ اس شعبہ سے بدظن ہوتے جا رہے ہیں اور میں یہ برملا کہہ رہا ہوں۔ مجھے کوئی عار اور شرم محسوس نہیں ہو رہی۔ یہ ہماری عدالتی اصلاحات کا آغاز ہے۔ جہاں پر ہم نے قانون کو سمجھنا ہے سیکھنا اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں اور کوشش کرنی ہے کہ جلد کئے جائیں اور قانون کی غلطی بالکل نہ کریں۔ ان خےالات کا اظہار چیف جسٹس نے ماتحت عدلیہ کے ججز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی جج تھےوگڈ مارشل نے لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس معاشرے اور ملک پر لعنت ہے جہاں پر آزاد عدلیہ نہ ہو اور بد قسمتی سے ایک کرپٹ اور بے صلاحیت عدلیہ ہو ۔ ان کا کہنا تھا کہ ججز جوڈیشل سیٹ اپ کی بنیاد اور ملک کے اہم ترین ستون کی بنیاد ہیں۔ یہاں سے لوگوں کو انصاف ملنا ہے۔ آپ انصاف کا منبع ہیں سب سے پہلے لوگ آپ کے در پر حاضر ہوتے ہیں کہ ہمیں انصاف دیا جائے ۔ میں کھل کر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں شدت سے اس چیز کو محسوس کر رہا ہوں کہ ہم اپنی اہلےت کو معیار کے ساتھ استعمال نہیں کرتے ۔ ہم عام قاضی نہیں جو ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنی مرضی اور فہم کے مطابق فیصلے کرے ۔ ہم اس قاضی کی طرح نہیں ۔بلکہ ہم وہ قاضی اور ججز ہیں ۔جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں آئین اور قانون کے مطابق انجام دینی ہیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا سب سے پہلے ججز کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کا مطالعہ کریں آپ کو قانون آنا چاہیے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جج کی ذمہ داری ہے کہ اس کو قانون آتا ہو اور اسے چاہیے کہ درست قانون کا نفاذ کرے اور انصاف فراہم کرے ۔ میں حیران ہوں کہ ہمارے ججز میں وہ قابل ججز کہاں چلے گئے جو ہاتھ سے لکھ کر فیصلہ کرتے تھے ۔ موتیوں کی طرح لکھائی تھی کبھی ان کے فیصلہ میں کٹنگ نہیں ہوئی۔ ہر اےشو آف لاءاور اےشو آف فیکٹ کو دےکھتے تھے اور اس تدبر وژن اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتے تھے کہ سپریم کورٹ تک یہ فیصلہ برقرار رہتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسے شعبہ سے منسلک کر دیا ہے جس میں عزت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی سے رزق بھی پیدا فرما دیا اور انصاف کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اگر آپ کے ذریعے لوگوں کو انصاف میسر آتا ہے تو یہ آپ کی مغفرت اور درجات کو کہاں سے کہاں لے جائے گا۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ مقدمہ بازی معاشرے کی بیماری ہے۔ جیسے جسم کی بیماری ہوتی ہے۔ انسان بیمار ہوتا ہے اور اس کو ٹھیک کرنے کے لئے سب سے بڑا ٹول ایک ڈاکٹر کا ہے جس کو مسیحا کہتے ہیں یہ معاشرے کی بیماری ہے اور اس کا سب سے بڑا ٹول ایک جج ہے۔ کیا آپ سب دولت اپنے طور پر اور اپنے تئیں یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ٹول جو پاکستان میں معاشرے میں اس لعنت اور بیماری کو اور مقدمہ بازی کسی بیماری کو ختم کرنے کے لئے کیا یہ ٹول بہترین طریقہ سے تیار ہے اور استعمال کیا جا رہا ہے۔ میں برملا عرض کروں گا کہ ہم لوگوں کو یہی تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم انصاف کر رہے ہیں لیکن مجھے اس جذبہ اور عبادت کے ساتھ انصاف نظر نہیں آ رہا۔ ججز کو یہ کرنا پڑے گا جس کوشش کو اور جہاد کو ہم نے شروع کیا ہے۔ اس میں ججز کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر نہیں کرینگے تو پھر آپ اپنے بچوں کے گنہگار ہیں۔ اگر آپ انصاف دے کر نہیں جائیں گے اور اگر آپ انصاف کی بنیاد اور ستونوں کو مضبوط نہیں فرمائیں گے تو یہ جو آپ کا قرض آنے والی کے لئے ہے آپ اسے ادا نہیں کر کے جائیں گے۔ کیا آپ بے سکونی میں اور قرض کی ادائیگی کے بغیر اللہ تعالیٰ کے سامنے جا کر سرخرو ہو سکیں گے یہ ممکن نہیں ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ہم مقننہ نہیں ہیں ہم قانون سازی نہیں کر سکتے ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں کہ ہم 1872ءکے 1884ءکے قوانین اینگلو سےکسن لاز جو یہاں پر رائج ہیں ان کو تبدیل کر سکیں نہیں ۔ہمیں انہی قوانین کو نافذ کرنا ہے۔اس پروسیجرل کورٹ کو ہم نے فالو کرنا ہے جو 1908ءمیں بنایا گیا تھا۔لےکن اس قانون پر ہی عمل کر لےں تو کم از کم فیصلے جلد ہو پائیں گے ۔ کتنے کتنے سال لوگوں کو ٹرائل کے دوران انتظار کرنا پڑتا ہے یہ بات بالکل درست ہے کہ کئی موقعوں پر تیس تیس اور چالیس چالیس سال لوگ مقدمہ بازی میں پھنسے رہتے ہیں کم از کم ان میں ایک تو مظلوم ہے جس کا استحصال ہو رہا ہے۔ اس کا کیا قصور ہے اس نے کیا گناہ کیا ہے۔ جس کا حق مارا گیا ہے اور اپنے حق کے حصول کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے اور اسے کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے کون ذمہ دار ہے۔ میں ذمہ دار ہوں بطور قاضی القضاد اور آپ ذمہ دار ہیں بطور چیف جسٹس ہائی کورٹ ، ضلع کے سیشن جج ہونے کے ناطے آپ ذمہ دار ہیں ۔ آپ سول جج اور جوڈیشل آفیسر ہونے کے لحاظ سے ذمہ دار ہیں ۔ ہمارا کوئی عزیز رحلت فرما جائے ہم برداشت کر لیتے ہیں ۔ہماری کےفیت ایک دن اور ہوتی ہے بڑی تکلیف میں ہوتے ہیں دوسرے دن تکلیف کم ہوتی چلی جاتی ہے پھر دس دن گزر جاتے ہےں پھر چہلم آ جاتا ہے پھر سال گزر جاتا ہے۔ لیکن وہ تکلیف ہم برداشت کر لیتے ہیں اور صبر کر لیتے ہیں ۔ مجھے بتائےے اس آدمی کے لیے جو اپنے حق کے لیے لڑ رہا ہے اور اس کو چالیس سال سے انصاف نہیں ملتا کےا وہ ہر روز مرتا اور ہر روز جےتا نہیں ہے ۔ کن لوگوں نے اسے انصاف دینا ہے ہمارے وسائل کم ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وسائل کم ہےں ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وسائل کم ہیں ہم جانتے ہیں کہ ہمیں حکومت کی طرف سے وہ تعاون اور حکومت کی طرف سے وہ وسائل اور سہولیات جن کا ہونا ایک عدالتی نظام کے لیے ناگزےر ہے وہ میسر نہیں آ رہیں لیکن کیا اس لیے کہ وہ تعاون نہیں ہے۔ وہ سہولیات ہمیں دستیاب نہیں ہو رہیں تو کیا ہم انصاف کی پہلو تہی کریں۔ یہ ممکن نہیں۔ میں آپ سے ایک ہی درخواست کرتا ہوں، قانون سیکھیے اور قانون جانیے کیونکہ جو ہم سپریم کورٹ میں بیٹھ کر اور ہائیکورٹ میں بیٹھ کر اور ہائیکورٹ میں بیٹھ کر ججز دیکھ رہے کہ نیچے اگر فیصلہ درست ہو گا تو وہ فیصلہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی قائم رہے گا لیکن اس فیصلہ میں سقم اور کمی ہے اور قانونی کمی ہے کیونکہ آپ نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور قانون آپ کو نہیں آتا اور اس میں قانون کے حوالے سے کوئی کمی اور سقم رہ گیا ہے تو پھر اس کی کسی پر ذمہ داری نہیں جاتی کسی ایگزیکٹو پر ذمہ دار نہیں جاتی اور اس میں کسی چیز کا تعلق نہیں یہ صرف اور صرف ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم نے لوگوں کو قانون کے مطابق انصاف مہیا نہیں کیا۔ یہ وقت آ گیا ہے میں ہوں یا کوئی اور ہو ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہے۔ اگر آپ اپنے گھر کو درست نہیں کرینگے اور لوگوں کو جلد انصاف فراہم نہیں کرینگے تو لوگ بدظن ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس شعبہ سے اور برملا کہہ رہا ہوں کوئی عار اور شرم محسوس نہیں ہو رہی کیونکہ میں اپنوں سے خود بات کر رہا ہوں۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیوں ہوں مقدمہ میں اتنا وقت کیوں لگتا ہے کہ چار، چار مقدمات ٹرائل میں پھنسے رہتے ہیں، کبھی کسی نے دیکھا کہ اس مقدمہ کا جلد فیصلہ کرے۔ سی پی سی میں کیا پراسیس بتایا گیا ہے۔ مجھے بلوچستان سے کم شکایت ہے مگر پنجاب اور دیگر جگہوں پر مجھے نہیں پتہ کس طرح ٹرائل میں 15سال لگتے ہیں اور کیوں لگائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ ہم ایکسپلائٹ ہوتے ہیں۔ آپ بھی ایکسپلائٹ ہوتے ہیں۔ دوست ایکسپلائٹ کرتے ہیں آ کر کم سے میں گھس جاتے ہیں۔ اسلام علیکم کیسے آتے تھے بس جی گزر رہا تھا میں نے کہا سلام کرتا چلوں باہر جا کر کسی کو بتائے جی میں نے سفارش کر دی۔ اس کے حق میں ہو گیا وہ یہی مان رہا ہے کہ میں نے تو جج صاحب سے سفارش دے کر کام کروایا۔ آپ ایکسپلائٹ ہوئے آپ کے ریڈر، آپ کے اسٹینوگرافرز دو میں سے ایک ہی فےصلہ ہونا ہےیایکبی ایک طرف سے السلام علیکم لی لی اور ایک نے دوسری طرف سے السلام علیکم لےیلی۔ جس کے حق میں ہو گیا وہ السلام علیکم قبول ہوگی آپ کو کچھ نہیں پتہ اور دوسرے کی واپس کر دی یہ بھی ایک احتیاط ہے۔ اس کنڈکٹ اور فرائض میں جو آپ نے فرض ادا کرنا ہے یہ بھی احتیاط کرنی ہے۔ آپ ایکسپلائٹ نہ ہوں ۔ میں بطور چیف جسٹس ایک سول جج ، ایک جوڈیشل مجسٹریٹ اور ایک چیف جسٹس آف پاکستان کے عدالتی اختیار میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا میں نے کبھی فرض نہیں کیا کہ میری عدلیہ اور میرے دوست کرپٹ ہیں ۔ ان کا کہنا تھا یہ ہر شہری کا بنےادی حق ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے تحت یساں سلوک کےا جائے اور ےہی آرٹےکل چارکا مےنڈیٹ ہے اس کو بار بار پڑھیں ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ یہ ہماری عدالتی ریفارمز کا آغاز ہے جہاں پر ہم نے قانون کو سب سے پہلے سمجھنا ہے سےکھنا ہے اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں اور کوشش کرنی ہے جلد کئے جائیں اور قانون کی غلطی بالکل نہ کریں ۔ شواہد کو غور سے پڑھیں ۔ قانون شہادت کو زرا غور سے دیکھئے ۔ قانون شہادت پر عبور ہونا چاہے آپ کو سی پی سی پر عبور حاصل ہونا چاہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر رےاست کی طرف سے آپ کو کتابیں اور بینچ بکس نہیں ملیں تو آج سے اپنے طور پر کوشش کریں ہر سیشن جج ضلع کی سطح پر روز کی پری پوزےشنز پر بیٹھ کر مشارورت کریں ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے حاصل کریں ۔ ہائی کورٹ کے فیصلے جو آپ کے لے بےنچ بک کا کردار ادا کر سکے تاکہ اس کے مطابق آپ قانون کے مطابق صحیح فیصلہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ججز کو مراعات اور سہولت دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یہ احسان نہیں۔ اس سے بہتر حالات ہمارے ہونے چاہئیں مگر ایک چیز بتا دوں۔ ہم ریاست کے سب سے زیادہ مراعات یافتہ ملازم ہیں۔ ہماری تنخواہیں، مراعات اور دیگر سہولیات دیگر گریڈ کے لوگوں سے زیادہ ہیں۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ انصاف کے حوالے سے اسلام کے مقابلہ میں لوگوں کا کوئی بنایا ہوا قانون انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ اگر انصاف کرینگے تو میرے جیسا چھوٹے قد کا آدمی بھی خود کو لمبا محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم قانون تبدیل نہیں کر سکتے ہم کوشش کر رہے ہیں بہت جلد ہم اپنے پراسیس سے جو قانون پہلے نافذ ہے اسے تھوڑا آسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ججز کو سہولت ہو گی کہ وہ جلد فیصلہ کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ججز کی ایک ڈیوٹی ہے آنے والی نسل کے لئے تو لوگ پیٹ پر پتھر باندھ لیتے ہیں۔ فاقے کاٹتے ہیں کہ میرے بچوں کو اس کے یہ فوائد ملیں گے کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم اس طرح کا کردار اپنائیں جس سے آنے والی نسل کو کم از کم پاکستان پر یقین ہو اور عدلیہ پر یقین یہ ایک منصف ادارہ ہے اور کسی حق کی خلاف ورزی ہے تو اس کو اس ادارے سے انصاف ملے گا۔ انصاف ملے گا اور صرف انصاف ملے گا۔