ایم۔بی۔ایس یا م۔ب۔س‘ یہ نام دنیا کی جانب سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو دیا گیا ہے اورایم۔بی۔ایس پر اس وقت پوری دنیانظریں مرکوزکئے کھڑی ہے کیونکہ یہ 32سالہ نوجوان اور ولی عہد سعودی عرب میں تبدیلیوں کا علمبردار ہے اور دنیا دم سادھے اس کودیکھ رہی ہے کہ وہ اپنے ملک میں کیا کیا اقدامات کرنے جارہاہے کیونکہ سعودی عرب کو دنیا بھرمیں ایک قدامت پسند معاشرے کے طورپر دیکھا جاتا ہے اس کی وجہ 80ء کے بعد کی صورتحال ہے جس کے بعد سعودی عرب ایک اعتدال پسند معاشرے کی طرف سے قدامت پسندمعاشرے کی جانب راغب ہونا شروع ہوا۔ کیونکہ 80ء سے پہلے سعودی عرب ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں لوگ بھرپور زندگی گزاررہے تھے وہ لیکن 1979ء میں دنیا بھر میں تبدیلیاںآئیں۔ سب سے بڑا واقعہ سعودی عرب میں ہوا جب مسجد الحرام(خانہ کعبہ) میں ایک گروہ نے قبضہ کرلیا اور وہاں پر سعودی حکومت نے بروقت اقدامات کئے اور دہشت گردوںسے خانہ کعبہ کا قبضہ چھڑایا لیکن وہاں پر خونریزی بھی ہوئی جس کے اثرات سعودی عرب پر بھی پڑے۔ دوسری طرف انقلاب ایران آگیا۔ تیسرا روسی فوج افغانستان میں داخل ہوگئی جس کے اثرات پوری دنیا میں ظاہر ہوئے تو سعودی عرب پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے لوگ 60اور 70 کی دہائی میں نارمل زندگی گزاررہے تھے۔ اس وقت خواتین گاڑیاں چلاتی تھیں اور ملازمت بھی کرتی تھیں سینما گھر ہوتے تھے لیکن 1979ء میں پیش آنے والے واقعات سے سب کچھ بدل گیا اور سعودی عرب کے لوگ متاثر ہوئے انتہاپسندی بڑھی۔ لیکن اب سعودی عرب بدل رہا ہے اور اس کے علمبرار ایم۔بی۔ایس ہیں۔
گزشتہ دنوں ولی عہد محمد بن سلمان نے برطانیہ اور امریکا کا دورہ کیا۔ ان کا دونوں ہی ملکوں میں بھرپوراستقبال کیا گیااورانہوں نے وہاں مصروف ترین گزارے۔ حکومتوں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ معاہدے ہوئے اور انہو ںنے میڈیا کو بھرپور انٹرویو دیئے اور کھل کر اپنا مؤقف پیش کیا۔ جس کی دنیا بھر میں پذیرائی بھی ہورہی ہے۔ برطانیہ میں ولی عہد جب اپنا روایتی عرب لباس پہن کر پہنچے تو برطانوی حکومت نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔ ملکہ برطانیہ کے ساتھ انہوں نے دوپہر کا کھانا کھایا توعرب کھانوں کے ساتھ حلال گوشت سے پکے ہوئے کھانوں کا بالخصوص اہتمام کیا گیا تھا۔ لندن میں لاتعداداشتہاری بورڈز آویزاں کئے گئے تھے جن پر صرف ایک سطر لکھی گئی تھی’’آنے والا مہمان سعودی عرب میں تبدیلی لارہا ہے‘‘۔ اور تو اور جس سڑک سے مہمان نے گزرنا تھا اسے سعودی پرچموں سے سجادیا گیا تھا جس پر مسلمانوں کا کلمہ اول کندہ ہے اوراس کلمے کو دیکھ کر ہر مسلمان کا دل کیا روح بھی خوش ہوجاتی ہے۔ وہاں کلمے والا سبز پرچم برطانیہ کی برفیلی ہواؤں میں لہرا رہا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ برطانیہ ہو یا امریکا اور دنیا کے دوسرے ممالک وہ سعودی عرب میںتبدیلیوں پرنظررکھے کھڑے ہیں اور ان اقدامات کی حمایت بھی کررہے ہیں جو سعودی ولی عہد کررہے ہیں۔
محمد بن سلمان نے جو سعودی عرب کو بدلنے کا بیڑہ اٹھایا ہے بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ کیونکہ سعودی عرب کو دور جدید میں لانا ضروری اصلاحات کرنا بوسیدہ اور فرسودہ نظام کو مرمت کرنا ہوگا۔ جس میں انہوں نے کرپشن کے خلاف بھی بھرپور اقدامات کئے اور اس سے تقریباً سعودی عرب کی حکومت نے ایک ارب ڈالر سے زائد کی ریکوری کی۔ جس سے خزانے کو فائدہ ہی ہوگا اور یہ رقم بھی عوامی فلاح وبہبودکے منصوبوں پر خرچ ہوگی۔ برطانیہ کے حلقے بھی ولی عہد کے ان اقدامات کی تعریف کرتے ہیں ان کی ہمت‘ جرأت اور فراست کو وہ مان گئے ہیں اور وہ اس کے مستحق بھی ہیں۔
برطانیہ کے بعد محمد بن سلمان امریکا گئے جہاں ان کا ایک امریکی ٹی وی کو دیا گیا انٹرویوپوری دنیا میں پھیل گیا جس میں ان سے ہر شعبہ سے متعلق سوال کئے گئے اور ولی عہد نے کھل کر دوٹوک جواب دیئے۔ وہ کسی بھی سوال کا جواب دینے سے جھجھکے نہیں۔مثلاً ان کی شاہانہ زندگی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میری دولت میرا ذاتی معاملہ ہے تو میں ایک امیر شخص ہوں۔ میں گاندھی یامنڈیلا نہیں میں اپنی دولت 51فیصد دوسرے لوگوں اور49فیصد خود پر خرچ کرتا ہوں۔ جیساکہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ سعودی عرب بدل رہا ہے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں محمد بن سلمان نے کہا کہ خواتین اورمردوں میں کوئی فرق نہیں موجودہ سعودی عرب اصل سعودی عرب نہیں اصل سعودی عرب دیگر خلیجی ممالک کی طرح تھا جہاں خواتین ڈرائیونگ بھی کرتی تھیں مووی تھیٹر بھی تھے اور ہر جگہ خواتین کام کرتی نظر آتی تھیں تاہم اب حالات بدل رہے ہیں خواتین کیلئے کالا عبایا ضروری نہیں۔ شریعت نے خاتون کو آزادی دے رکھی ہے کہ وہ جیسے چاہیں اپنا ستر چھپائیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ایشوز پر انہوں نے کھل کر جوابات دیئے جن میں ایران سعودی تنازعہ‘ کرپشن کے خلاف اقدامات‘ سعودی عرب میں سکولوں کے نصاب بارے اقدامات‘ انسانی حقوق بارے بھی بات کی اور اسامہ بن لادن سے متعلق کہا کہ وہ سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات کو خراب کرنا چاہتا تھا ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024