کل 10 اپریل کو پاکستان میں بھی “ٹیکس ڈے” منایا گیا جس کی بیشتر لوگوں کو خبر بھی نہ ہو سکی ۔ ملک اور گھر ایک جیسے ہوتے ہیں جن کےلئے احساس ملکیت ناگزیر ہوتا ہے جس کو چلانے کےلئے مالی وسائل ناگزیر ہوتے ہیں گھر کی ضروریات پوری کرنے کےلئے اہل خانہ کماتے ہیں اور گھر گرہستی کو چلاتے ہیں لیکن ریاست کوئی کاروبار تو نہیں کرتی وہ اپنے نظام کو چلانے کےلئے ٹیکس لگا کر کام چلاتی ہے۔ مہذب معاشروں میں ٹیکس کلچر کو پروان چڑھایا جاتا ہے لیکن ان سب کوششوں کے باوجود صرف تنخواہ دار طبقہ ہی سوفیصد ٹیکس ادا کرتا ہے جس کی شرح 40 فیصد تک پہنچ جاتی ہے جبکہ بیشتر سرمایہ دار ‘ صنعت کار اور سیٹھ دھڑلے سے ٹیکس چوری کرتے ہیں اور ماہرین نے اسے فن کا درجہ دے دیا ہے 10 اپریل کو ”ٹیکس ڈے“ قرار دے دیا گیا پاکستان میں ٹیکس وصول کرنا ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے جبکہ ٹیکس چوری کرکے گندی دولت کے انبار لگانا بیرون ملک جائیدادیں بنانا حق سمجھا جاتا ہے ۔ اب تو مدتیں بیت چلی ہیں واشنگٹن میں معروف مدیر اور تجزیہ نگار شاہین صہبائی کا مہمان تھا اور وہ ٹیکس کاغذات جمع کرانے کےلئے تیاریاں کر رہے تھے جبکہ انکی تنخواہ پاکستان سے جاتی تھی جس پر امریکی قوانین کے مطابق ٹیکس لاگو نہیں ہوتا تھا لیکن وہ رضاکارانہ طور پر ہر سال باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے تھے اس کالم نگار کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ انکے بچے صرف اس رضاکارانہ ٹیکس ادائیگی کی وجہ سے امریکہ کی چوٹی کی یونیورسٹیوں میں تقریباً مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کی سہولت صرف ٹیکس دھندگان کو حاصل ہے بصورت دیگر بچوں کو وہاں پڑھانا ان کےلئے ناممکن تھا ٹیکس اور اسکی “برکات” سے اس دیہاتی پس منظر رکھنے والے کالم نگار کی شناسائی کا پہلا مرحلہ تھا۔ مہذب دنیا میں لوگ حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں تو بدلے میں صحت، تعلیم، روزگار، جان مال عزت آبرو کی حفاظت کی ضمانت پاتے ہیں، بے روزگار ہوں تو گزارے کےلئے باعزت روٹی روزی کا بندوبست رہتا ہے۔
پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور اب عوام کا کیا جواب ہے۔ اس بارے میں معروف ماہر تعلیم جناب عابد شیروانی نے کسی دل جلے کا خوب شانداراور ’کرارا‘ خط بھجوایا ہے اس منہ پھٹ سچائی نے دل کو مائل کیا کہ یہ خط اور اس تحریر کو حکومتی انقلابیوں کے منہ پر دے مارا جائے۔ شرم تو غالب کو ہی آتی تھی اس لئے بیچارا کعبے کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی شرمسار ہوا لیکن ہفتہ وار طواف کعبہ کےلئے رونی صورتیں بنانے والی حکمران اشرافیہ قوم کی امانت کے ساتھ کیا کررہی ہے، یہ وہ آئینہ ہے۔ اس آئینہ میں ہمیں اپنی بھدی، ڈرونی تصویر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس خط میں صدر، وزیراعظم، وزراءاعلی سمیت ’سینکڑوں‘ وزراءکو طنز کے نشتر سے مخاطب کیاگیا ہے۔ ابتدائیہ میں پیشہ ور اور کاروباری افراد کی طرف سے نمائندگی کا بیان پیش کرکے بات یوں شروع کی گئی کہ ”ہم ٹیکس کا ہیرپھیراورچوری نہیں کرتے۔ ہم ٹیکسوں کی بچت سے اپنے اہل خانہ کےلئے کچھ تھوڑی سی روٹی روزی کا بندوبست کرتے ہیں۔ ہم جنریٹر، انورٹر، سورج کی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والا نظام خریدتے ہیں کیونکہ حکومت بلاتعطل بجلی کی فراہمی میں ناکام ہوچکی ہے۔ ہمیں اپنے گھروں پر پانی صاف کرنے کا نظام خود سے نصب کرنا پڑتا ہے کیونکہ حکومت پینے کا صاف پانی تک فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ہمیں اپنی حفاظت کا بندوبست بھی خودکرنا پڑتا ہے۔ اس مقصد کے لئے محافظ اور خفیہ نگران کیمروں کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ حکومت ہماری حفاظت کو یقینی بنانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ سیاستدان اور سفر میں انکے شریک کار مسلح محافظین کے شان وشوکت بھرے قافلوں میں محوسفر ہوتے ہیں جس کا اہتمام ہمارے سرمایہ سے ہوتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں کیونکہ حکومت اچھے سکول فراہم کرنے میں بھی ناکام ہوچکی ہے۔
سیاستدانوں اور حکام کے بچوں کے تعلیمی واجبات نیازمند کاروباری اشخاص کے ٹیکسوں سے اداکئے جاتے ہیں۔ علاج کےلئے ہم نجی ہسپتال جانے پر مجبور ہیں کیونکہ حکومت ڈھنگ کا علاج معالجہ فراہم کرنے میں بھی ناکام ہوچکی ہے۔ حکومتی وزراءکے علاوہ انکے حواریوں کے لندن میں علاج کا خرچ صدارتی فنڈ سے بھرا جاتا ہے۔ ہمیں گاڑی خریدنی اور اسکی دیکھ بھال کا بندوبست بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ حکومت نقل وحمل کا کوئی مناسب انتظام کرنے میں بھی ناکام ہے۔ (جاری)
اس صورتحال کا نتیجہ کچھ یوں برآمد کیاگیا کہ ٹیکس دینے والے کے حصے میں ریٹائرمنٹ کے بعد آتا ہی کیا ہے؟ حالانکہ وہ ا±س وقت سب سے زیادہ ضرورت مند ہوتا ہے کہ وہ اپنی بقاءکےلئے برسرپیکار ہوتا ہے۔ ا±سے کچھ بھی میسر نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ سماجی تحفظ (سوشل سکیورٹی) بھی نہیں۔ اسکی اپنی کمائی ’ای پی ایف‘ اور ’ای ٹی ایف‘کا بھی حکومت غبن کرلیتی ہے۔ ہماری تمام عمر کی پونجی حکومت عوام سے ووٹ خریدنے کی خاطر دی جانےوالی رعایتوں (سبسڈی) پر صرف کردیتی ہے۔
خط کے لکھاری نے سوال پوچھا کہ اسکے سوا حکومت ہمارے ٹیکس سے جمع شدہ سرمایہ سے کیا کچھ کرتی ہے؟ اسی ترتیب میں شق وار جواب کچھ یوں دئیے ہیں کہ ’اس سرمایہ سے عدالتیں قائم ہوتی ہیں جو حکومت کے کہنے پر فیصلے صادر کرتی ہیں۔ پولیس تھانے فعال ہوتے ہیں جو عموما سیاستدانوں کےلئے سرگرم رہتے ہیں۔ ہسپتال چلائے جاتے ہیں جونادارکا علاج کرنے میں ناکام ہیں۔ سڑکیں اور ڈھانچہ تعمیر کرتے ہوئے ہمارا (چالیس سے سوفیصد تک) سرمایہ لوٹ لیاجاتا ہے۔ یہ فہرست لامتناہی ہے۔
دیگر مہذب ممالک کی طرح حکومت پاکستان بھی مذکورہ بالایہ تمام ذمہ داریاں انجام دے توبھلا کوئی کیوں ٹیکس چوری کرےگا؟ یا ایسا کرنے سے گریز پا ہوگا؟ سب جانتے ہیں کہ ٹیکس کا تمام پیسہ حکام اور سیاستدانوں کی نذرنیاز ہوجاتا ہے۔ بیرون ممالک بینکوں میں اربوں ڈالر کی موجودگی اس حقیقت کا بین حوالہ ہے۔دو سے دس فیصد کے درمیان شرح منافع سے کاروبار ہوتا ہے۔ حکومت اپنے فاسد اخراجات پورے کرنے کےلئے اپنی آمدن کا تیس فیصد بے رحمی سے خرچ کرڈالتی ہے۔ کیا یہ کسی طور پر بھی جائز ہے؟“ کرب سے مخاطب کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے ”حضور! یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دینا چاہتے۔‘ہم اپنے ٹیکس سرمایہ کو اپنی ضروریات کےلئے بچاتے ہیں تاکہ بڑھاپے میں ہمارے تحفظ اور دیکھ بھال کےلئے کام آسکے۔ یہ گنجلک مسئلہ اپنی ذمہ داریوں کی احسن اور مستعد انداز میں انجام دہی میں حکومت کی ناکامی کا شاخسانہ ہے۔ اس معاملے میں صرف حکومت خود ہی پوری کی پوری ذمہ دار ہے“۔ پارلیمان کی اصل ذمہ داری یہ تھی۔ وہ قانون سازی کرتی۔ لیکن یہاں مرسیڈیز گاڑیوں، اپنی فیکٹری کا سامان اور مشینری منگوانے کےلئے ایس آر او جاری ہوتے ہیں۔ یہ بھی اسی طرح کی قانون سازی ہوتی ہے جیسے پارلیمنٹ کا درواہ کھٹکھٹانے کے بجائے سیدھے ایوان صدر کی کنڈی ’کھڑکائیں‘ اور ’ون ونڈو آپریشن‘ کی سہولت اختیار کریں۔ کم خرچ بالانشیں۔ نہ اپوزیشن کی بک بک نہ ایوان میں ہر رکن کو منہ لگانے کی ضرورت۔ جو کرنا ہو، آرڈیننس تیار کریں اور لوگو کردیں۔ بڑی یا چھوٹی سیاسی جماعتیں ہوں، باریش قیادت کی قرآن وسنت کے حوالوں سے مزین تقاریر ہوں، انقلابیوں کے جلسے ہوں، سول نافرمانی کے اعلانات کرنےوالے سیاسی پہلوان ہوں یا اعدادوشمار کا طومار باندھتے سرکاری جادوگر، کسی نے سنجیدگی نہیں دکھائی۔ یہ خط نہیں، سچ ہے۔ سچ نہ سننے والی قومیں مٹ جاتی ہیں۔ قوم کے اندر سلگتے مسائل چنگاری ملتے ہی آگ کے بھڑکتے الاﺅ میں تبدیل ہو جایا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ٹیکس اصلاحات کب ہونگی؟ اب تو مذمت، تحسین اور گالی تک ہی سیاست و صحافت قید ہوکررہ گئی۔ کبھی سیاسی جماعتوں میں مجالس برپا ہوتی تھیں۔ ان میں ٹیکسوں پر بات ہوا کرتی تھی۔ اپنے ایجنڈے اور منشور کو اپنے دائیں یا بائیں نظریات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا تھا۔ اب نہ وہ جماعتیں ہیں، نہ وہ افراد، نہ کوئی مجلس، نہ کوئی نظریہ اور نہ ہی کوئی احساس۔ سب وزیراعظم بننا چاہتے ہیں لیکن نہ کسی کی تیاری ہے، نہ کوئی ایجنڈا کہیں دکھتا ہے، نہ ہی کوئی ٹیم کسی کونے کھدرے سے دکھائی پڑتی ہے‘ بس سوشل میڈیا ہے، اخبار ہے اور ٹی وی سکرین ہے۔ عجب ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ 5 سال ایوان صدر کو اپنی چراگاہ بنانے والا اب خود وزیراعظم بننا چاہتا ہے اور اپنے نا آموز بیٹے کو پتہ نہیں کیا بنانا چاہتا ہے۔ 35 برس سے مختلف صورتوں میں حکمرانی سے لطف اندوز ہونےوالوں کا دل بھی نہیں بھرا وہ ابھی مزید قوم کی ”خدمت“ کرنا چاہتے ہیں اور انکے حریف عمران خان باتیں تو جمہوریت اور حضرت عمرؓ کے دور کی کرتے ہیں لیکن عملاً ٹیکس چوروں اور لینڈ مافیا کے گندے کرداروں میں گھرے ہوئے ہیں اور کسی پنجابی قادر الکلام شاعر کے یہ مصرعے یاد آرہے ہیں ....
شیشہ تاں نوں س±ٹ کے آکھنے
ربا خیر کریں اے ٹ±ٹے ناں
ہم شیشہ فضا میں اچھال کر دعا مانگتے ہیں
اے خدا ہم پر رحم فرما اور ہمارا جام ٹوٹنے سے بچا لے!