بدھ ‘24 رجب المرجب ‘ 1439 ھ ‘ 11 اپریل 2018ء
حقوق بلوچستان کے بعد جنوبی پنجاب کا درد جاگ اُٹھا، فاٹا والے تیار ہو جائیں
بلوچستان ڈرامے کے بعد ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ یہ مخدوم کوریجہ، گردیزی، لغاری، فتیانے، مزاری،نون ، بخاری، پیر وغیرہ 70 برس سے اپنے علاقوں یعنی جنوبی پنجاب پر حکمرانی کررہے ہیں مگر آج بھی جنوبی پنجاب کی حالت وہی ہے جو کل تھی۔یہ لوگ اپنے مفادات کی خاطر اپنا ووٹ بنک ہرحکمران جماعت کو فروخت کرتے رہے ہیں۔ اب جو 7 یا 10 ارکان اسمبلی نے جنوبی پنجاب صوبہ جماعت بنائی ہے پہلے جب یہ حکمران تھے۔ تب انہوں نے یہ ایشو کیوں نہیں اٹھایا۔ صاف پتہ چل رہا ہے بلوچستان والا کھیل اب پنجاب میں جنوبی صوبہ کے نام پرکھیلا جا رہا ہے۔ بہت جلد یہ کھیل فاٹا ارکان کی مدد سے بھی کھیلا جائے گا۔ کیونکہ انکے حقوق کو بھی محرومیوں کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی والے تالیاں بجا کر داد دے رہے ہیں۔ مگر کھیلنے والے اور تالیاں بجانے والے بھول رہے ہیں کہ ایم کیو ایم والے بھی یہی مطالبہ کراچی کیلئے کر رہے ہیں۔ تو ان کو دھتکارا کیوں جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بھی بلوچ اور پٹھان کی واضح تقسیم سامنے ہے وہاں سب خاموش کیوں ہیں خیبر پی کے میں ہندکو بولنے والوں کی نہیں سنی جاتی۔ سارا زور صرف پنجاب کی تقسیم پر کیوں۔ سب کو معلوم ہے۔ جو بھی خفیہ ہاتھ آئندہ الیکشن میں من پسند افراد لانے کیلئے یہ کھیل رچا رہے ہیں وہ فی الوقت لُطف اُٹھا لیں گے مگر آنےوالے دورمیں اسکے جو نتائج سامنے آئینگے۔ وہ خاصے تلخ ہونگے۔ اس وقت بندر تو ناچتا ہے قلندر کے سامنے والا کھیل چل رہا ہے۔ مخدوم بختیار خسرو ذرا کھل کرپنجاب میں پاکستان میں 32 یا 30 صوبے بنانے کے اپنے بیانیے کو اعلامیے کی شکل تو دیدیں پھر دیکھیں لوگ کس طرح انکے انداز خسروانہ کو انداز بےدردانہ سے کچلتے ہیں۔
٭........٭........٭
چودھری شجاعت کی کتاب سچ تو یہ ہے کی تقریب رونمائی
اب کتاب مارکیٹ میں آئے گی تو پتہ چلے گا کہ اس میں کتنا سچ ہے۔ ویسے تو چودھری صاحب نے نام نہایت چُن کر رکھا ہے۔ ورنہ اس سے قبل مارکیٹ میں اسی نام سے ملتے جلتے ناموں والی متعدد کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ کوئی ادھورا سچ ہے تو کوئی کڑوا سچ وغیرہ وغیرہ اب دیکھنا یہ ہے کہ سچ تو یہ ہے میں کتنا سچ ہے۔ چودھری صاحب باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا ثقافتی، روایتی خاندانی پس منظر بھی انکے دستر خوان کی طرح وسیع ہے۔ معلوم نہیں یاری دوستی نبھانے میں شہرت رکھنے کے باوجود وہ میاں صاحب سے یاری کیوں نہیں نبھا سکے۔ ورنہ جو بھٹوکے سامنے اکبر بگٹی کیلئے ڈٹ جائیں وہ مشرف کے سامنے کیوں ڈھے گئے شاید اس میں میاں صاحب کا بھی قصور ہو ۔ اب یہ کتاب بازار میں آئےگی تو چودھری شجاعت کی ذاتی، سیاسی اور سماجی زندگی کے بہت سے پہلو بے نقاب ہونگے۔ انکے دوستوں اور دشمنوں کا تذکرہ بھی ملے گا۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی کے دولہا میاں وزیراعلیٰ بلوچستان تھے۔ عبدالقدوس بزنجو گرچہ اس سیاسی مقام پر نہیں کہ کسی بڑی سیاسی شخصیت کی کتاب پر نقدو نظر کریں مگر اقتدار کا تاج اور لباس کی خوشنمائی بہت سے عیب چھپا لیتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں انکے پی آر او یا تقریری مسودہ تیار کرنے والے کیا لکھ کر دیتے ہیں۔ ورنہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ بلوچستان کے وزیر اور مشیر پنجاب کے سیاستدانوں کے بارے میں کتنا جانتے ہیں۔ یہ تو بس ق لیگ کا لاحقہ ہے جو وزیراعلیٰ بلوچستان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ سو اس کی بدولت انہیں تقریب کا دولہا بنایا گیا ورنہ اگر وہ صرف ایم پی اے ہوتے تو شاید ہی ق لیگ والوں کو انہیں دعوت نامہ بھیجنا یاد رہتا۔
٭........٭........٭
شام کی صورتحال پر روس اور امریکی نمائندے میں جھڑپ
شام کا المیہ یہ ہے کہ وہاں امریکہ اور روس ہی نہیں خود مسلمان بھی آپس میں برسر پیکار ہے۔ عرب و عجم کی جنگ کہہ لیں یا فرقہ وارانہ تصادم نے اس خوبصورت ملک کا حلیہ تبدیل کر دیا ہے۔ شہر و دیہات کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ وہاں کے حکمرانوں ہوں یا باغی کسی کو بھی اپنے ملک پر وہاں بسنے والے خوبصورت نرم دل لوگوں پر ترس نہیں آ رہا ۔ جب گھر والے ہی آپس میں لڑ مر رہے ہوں تو صلح کے نام پر اندر گھس آنےوالے یا مدد کےلئے بلائے گئے پڑوسی یا بیرونی عناصر بھی اس تصادم میں فریق بن جاتے ہیں۔ وہاں اس وقت
مرنے کا کوئی خوف نہ جینے کی آرزو
کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی
والی کیفیت نظر آتی ہے۔ امریکہ اور روس دونوں کے مفادات بھی شام کے مخالفین اور متحارب فریقوں کیساتھ ہیں۔ شام کے میدان جنگ میں دونوں طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میںہیں مر شامی رہے ہیں۔ اب تو اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی امریکہ اور روس ایک دوسرے کو کھلا کر نشانہ بنا رہے ہیں۔ شام کی تباہی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ یہ نوک جھونک اب کسی بڑے تصادم کی راہ ہموار کرتی نظر آ رہی ہے۔ ہم پاکستانیوں کو ہوشیار رہنا ہوگا۔ ایک بار پھر سرد جنگ کا زمانہ لوٹ کر آ رہا ہے۔ دنیا میں ایک سپر پاور کی حکومت تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ اسکے مقابلے کیلئے دوسری طاقت کا ہونا بھی ضروری ہے جو اسے نتھ ڈالے رکھے اس لئے ہمیں بھی امریکہ کے چرنوں میں بیٹھنے کی بجائے اب روس اور چین کے ساتھ رہنے اور اپنا وزن انکے پلڑے میں ڈالنا ہمارے لئے اچھا آپشن ثابت ہو سکتا ہے....
٭........٭........٭
ضمانت پر رہائی کے بعد سلمان خان کا پہلا ٹویٹ
”شکر گزاری کے آنسو“ نکلا
سلمان خان کا سلسلہ یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے اور اس پر غصب یہ کہ بڑا اداکار ہے۔ 50 برس کی عمر میں بھی وہ کسی خوبرو نوجوان سے کم نظر نہیں آتے انکے چاہنے والے پرستار بھی بے شمار ہیں۔اردو جسے بھارت میں ہندی کہتے ہیں بھارت میں کروڑوں افراد بولتے اور سمجھتے ہیں اس لئے بھارتی فلموں کی دوسری یا پہلی بڑی مارکیٹ اردو فلموں کی ہے۔ سلمان خان اس مارکیٹ کے راجہ ہیں۔ انکی فلموں کا شائقین کو انتظار رہتا ہے۔ ان پر برسوں پہلے کالا ہرن شکار کرنے کا کیس بنا جو 20 برس چلتا رہا اب عدالت نے انہیں3 سال قید کی سزا سنائی سرکاری وکیل تو انہیں 5 سال اندر کرنے کا مدعی تھا جبکہ ان کا وکیل 3 سال کی قید پر بضد ، ورنہ جج صاحب تو انہیں رہا کرنے کے موڈ میں تھے۔ انکے اپنے وکیل نے بڑی مشکل سے محنت کرکے کم ازکم 3 سال قید پر جج کو رضا مند کر لیا۔ ورنہ وہ بھارت جہاں آئے روز مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے سرعام قتل کیا جاتا ہے۔ وہاں کسی قاتل انتہا پسند ہندو کو سزا نہیں دی جاتی انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے تو کیا سلمان خان کا جرم اس سے بھی بڑا ہے۔ اس وقت بھارتی وزیراعظم اور ایک صوبے کا وزیراعلیٰ سینکڑوں مسلمانوں کے قتل کے مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود آزاد ہیں مگر سلمان خان کو ضمانت کرانی پڑ رہی ہے، کیا یہی انصاف ہے یہی مہان بھارت ہے ۔ جہاں مسلمان کے جان سے زیادہ گائے اور ہرن کی جان کو اہمیت حاصل ہے۔
٭........٭........٭