ذمہ دار کون
موبائل فون پر واٹس ایپ میں لاتعداد ایپس آجاتی ہیں جنہیں میں ڈیلیٹ کر کر کے تھک جاتا ہوں ،میرا بایاں ہاتھ موبائل پکڑے پکڑے سو جاتا ہے ، ان میں کبھی کبھار کام کی بات بھی آ جاتی ہے۔ اگلے روز ایک درخواست نظر آئی جو بہت کارآمد تھی اور اُس کے آخر میں شئیر کرنے کی درخواست بھی تھی۔لہٰذا قارئین کی خدمت میں حاضر ہے:
’’بخدمت جناب صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم، کابینہ کے وزراء اور سیکڑ وں دیگر ہر قسم کے وزراء کے نام:
جنابِ عالی، میں یہ درخواست پاکستان کے پیشہ وروں اور تاجروں کی طرف سے گزارش کرتا ہوں کہ ہم ٹیکس کا فراڈ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم تو ٹیکس بچانے کی کوشش میں ہیں کہ اپنے خاندانوں کے لیے معمول کی سہولتیں حاصل کر سکیں۔
۱۔ ہم جنریٹرز؍انورٹر؍یو پی ایس؍ سولر سسٹم اس لیے خریدتے ہیں کہ حکومت ہمیں قابلِ بھروسہ پاور سپلائی مہیا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
۲۔ ہم اپنے ذاتی صاف پانی کے سسٹم لگاتے ہیں کیوں کہ حکومت ہمیں محفوظ پینے کا پانی دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔
۳۔ ہم اپنے لیے سیکیورٹی گارڈز کرائے پر رکھتے ہیں اور اپنے سی سی ٹی وی کیمرے لگاتے ہیں کیوں کہ حکومت ہماری حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔(سیاست دان اور اُن کے حواری ہمارے پیسوں پر ہتھیار بند محافظین کے دستے لے کر گھومتے ہیں!)
۴۔ ہم اپنے بچوں کو پرائیویٹ ا سکولوں کالجوں میں پڑھاتے ہیں کیوں کہ حکومت عمدہ قسم کے ا سکول کالج مہیا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ (سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کے ا سکول ؍کالج جاتے بچوں کی فیس بزنس مین برادری کے ہمدردوں سے حاصل کی جاتی ہے۔)
۵۔ ہم پرائیویٹ ہسپتالوں سے اپنا علاج کرانے پر مجبور ہیں کیوں کہ حکومت ہمیں عمدہ قسم کی طبی سہولتیں مہیا کرنے میں بھی ناکام ہو چکی ہے۔( صدرِ پاکستان کے فنڈ سے حکومتی وزراء اور اُن کے پیاروں کو علاج کے لیے لندن اور امریکہ بھیجا جاتا ہے)۔
۶۔ ہم کاریں خریدتے ہیں اور اُن کی دیکھ بھال کرتے ہیں کیوں کہ حکومت عمدہ قسم کی ٹرانسپورٹ سہولتیں بھی مہیا کرنے سے قاصر ہے۔
اور آخر میں : ایک ٹیکس گزار کوریٹائر منٹ پر ملتا کیا ہے چند سو روپلی جب کہ یہی وقت ہوتا ہے کہ اُسے اپنے گزارے کے لیئے مناسب رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ غور کیا جائے تو کچھ بھی نہیں!کوئی سوشل سیکورٹی نہیں! اُس کے اپنے جمع شدہ فنڈز میں بھی حکومتی کارندے مختلف قسم کے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔جب کہ اُس کی جمع پونجی حکومت اُس کے عرصۂ ملازمت میں خرچ کرتی رہتی ہے اور فائدہ اُٹھاتی ہے۔
ہمار ے ٹیکس سرمائے سے حکومت ہمیں دیتی کیا ہے؟ وہ عدالتیں جو حکومت کے کہنے پر فیصلے سناتی ہیں؟
پولیس ا سٹیشن جو سیاست دانوں اور حکومتی افسروں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں؟
ایسے ہسپتال جہاں نہ دوائیاں ہوتی ہیں، اور اگر ہوتی بھی ہیں تو زائدالمیعاد؟اور جو ضرورتمندوں کا علاج بھی نہیں کرتے؟
شاہراہیں اور پُل جن میں ہمارا اربوں روپیہ چُرایا جاتا ہے؟ (۴۰ سے ۱۰۰ فی صد) ؟ کیوں کہ کئی سڑکیں تو صرف فائلوں میں بنتی ہیں۔
یہ فہرست ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔اگر پاک حکومت مہذب ملکوں کی طرح یہ سب کچھ مہیا کر رہی ہوتی توکوئی کیوں ٹیکس چوری کرے یا ٹیکس سے اعراض کرے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ سارے کا سارا ٹیکس کا سرمایہ حکومتی کارندے اور سیاست دان خوردبرد کر لیتے ہیں ورنہ اربوں کھربوں ڈالر بیرونی بینکوں میں پڑے سڑ نہ رہے ہوتے!
تجارت کے کاموں میں منافع کی شرح ۲ سے ۱۰ فی صد ہوتی ہے جب کہ حکومت آمدن کا ۳۰ فیصد ہتھیا لیتی ہے اور وہ بھی اپنے اللوں تللوں کے لیے۔ کیا یہ معقول بات ہے؟
جنابِ عالی ! یہی وجوہات ہیں کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دینا چاہتے۔ کیا اس سب سے یہ نمایاں نہیں ہوتا کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بُری طرح ناکام ہو چکی ہے؟اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ تنہا حکومت ہی تمام خرابیوں کی ذمہ دار ہے۔‘‘
اس درخواست میں چند باتیں محلِ نظر ہیں۔ مثلاً تنہا حکومت تمام خرابیوں کی ذمہ دار نہیں ہو سکتی۔ ملک میں بسنے والے بھی تو بہت سی باتوں کے ذمہ دار ہیں۔ سب سے پہلے ٹریفک کے نظام کو لیجیے۔ حکومت نے تو ٹریفک قوانین لاگو کیے ہُوئے ہیں۔ ہر چند یہ انگریز نے وضع کیے تھے مگر ٹریفک قوانین خلافِ عقل ہر گز نہیں ہیں۔لہٰذا ان قوانین کی مِن وعَن پابندی ہونی چاہئیے۔ بائیسکل، ریڑھی، تانگا، موٹر سائیکل، موٹر کار، بس، وین، منی بس سوائے پیدل چلنے والے کے ہر ایک پر لازم ہے کہ شام سے صبح تک وہ اگر سڑک پر آئے تو اس کی آگے پیچھے کی بتیاں جلی ہونی چاہیئں۔(اس پر مجھے وہ بے حد نیک اسٹیشن ماسٹر یاد آ جاتا ہے جس نے1992میں سندھ کے ایک چھوٹے سے ا سٹیشن پر ایک مال گاڑی کو سات گھنٹے روکے رکھا کہ اُس گاڑی کی ٹیل لائٹ نہیں تھی۔ٹیل لائٹ منگوانے میں سات گھنٹے لگے۔ صرف اس لیے کہ قانون کی خلاف ورزی نہ ہو اور کوئی حادثہ نہ ہو جائے! اللہ اُس ا سٹیشن ماسٹر کے درجات کو بلند فرمائے! ) عوام سوچیں کون کون اس قانون پر عمل پیرا ہو رہا ہے۔ یہ قانون کس کی جان کی حفاظت کے لیے ہے؟اس قانون کو جو کوئی بھی توڑ رہا ہے حکومت کو اُسے پکڑ کر سزا دینی چاہئیے۔ حکومت کی غَلَطی اور قصور یہ ہے کہ وہ اس قانون پر عمل نہیں کروا رہی۔ اس کوتاہی پر حکومت کو پوچھنے والا ادارہ پارلیمنٹ ہے۔ مگر پارلیمنٹ ع
کس کس کو یاد کیجیے کس کس کو روئیے
اسی طرح راستے کا حق ڈبل روڈ پر اُلٹے ہاتھ کی سڑک پر بائیں طرف سے آنے والے کا ہے۔ مگر ذرا سی آسانی حاصل کرنے کے لیے عوام رانگ سائیڈ سے آتے ہیں۔ یوں وہ اپنی جان تو خطرے میں ڈالتے ہی ہیں سیدھے راستے پر آنے والوں کی جان کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیںاور گناہ بھی کرتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ کوئی ٹریفک پولیس والا ان کا چالان نہیں کاٹتا۔گویا حکومت اپنی ذمہ داری نہیں پورا کر رہی۔کئی بیرونی مہذب ممالک کے سیانوں کا کہنا ہے کہ اگر ملک میں صحیح معنوں میں ٹریفک قوانین لاگو ہو جائیں تو جرائم کی شرح میں پچاس فی صد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ یہ رانگ سائیڈ سے آنا تو اتنا عام ہو چکا ہے کہ بعض داڑھی والے نماز کے لیے آتے جاتے یہ حرکت کرتے ہیں اور اکثر سمجھانے پر بھی باز نہیں آتے۔ ان کی نمازوں کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ راستے کا حق مار کر نماز کیسے ہوسکتی ہے؟ علماء کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔کیا یہ نماز اُن نمازوں میں سے نہیں جو منہ پر دے ماری جائیں گی؟پھر سُرخ بتی پر رُکنے میں کس کا فائدہ ہے؟ بعض لوگ کیوں نہیں رُکتے؟ صاف ظاہر ہے اُن کو اپنی جان پیاری نہیں ہے۔ آخر میں ’’سلیس فلسفۂ سیاسیات‘‘ سے اقتباس:
ریاست کو سب سے بڑا اندرونی خطرہ سیاسی پارٹیوں کی آپس میں طاقت کی کشمکش ہوتی ہے جس سے یہ معاشرے میںتقسیم پیدا کرتی ہیں۔
جب بہت سے حکومتی گروپ ریاست پر حکومت کر رہے ہوںتو وہ اپنے سیاسی جھگڑوں کی بنا پر مشترکہ بھلائی کے کاموں میں دلچسپی لینا چھوڑ سکتے ہیں، اور صرف اپنی انتخابی کامیابیوں پر اور مستقلاً حکومت میں رہنے پر ہی تمام توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔