اتوار‘ 23 صفر المظفر 1445ھ ‘ 10 ستمبر 2023ئ

فرانسیسی عدالت نے سکولوں میں عبایہ پر پابندی کو جائز قرار دیدیا
اگر اس کا نام آزادی ہے تو اسے دور سے سات سلام۔ اگر کسی دوسرے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے‘ لباس پہننے اور کھانے پینے میں مداخلت جائز ہے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں تو پھر فرانسیسی عدالت کا اپنی حکومت کے فیصلے کو جائز قرار دینا درست ہے۔ مگر وہی یورپ و انسانی حقوق کی تنظیمیں جو ہمیں قدم قدم پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کسی ناراض ساس کی طرح روکتی ٹوکتی نظر آتی ہیں۔ انہیں فرانسیسی حکومت کا عبایہ کے بارے میں پابندی کا حکم انسانی حقوق کی خلاف ورزی نظر کیوں نہیں آتا۔ وہ فرانسیسی حکومت کی طرف سے مسلم طالبات کو عبایہ سے روکنے پر آواز کیوں بلند نہیں کرتیں۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ انسانی حقوق مغرب کے اور ہیں‘ ہمارے لئے اور ہیں۔
صرف یہی نہیں‘ اب تو فرانسیسی عدالت نے بھی اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کا بھی خیال نہیں رکھا۔ جب ننگے سر چلنے پر کوئی پابندی نہیں تو عبایہ پہن کر چلنے پر کیوں پابندی ہو۔ پہلے سوئیڈن نے قرآن مجید کی بے حرمتی کو قانونی اور حکومتی تحفظ دیا جس سے اربوں مسلمانوں کی دلآزاری ہوئی‘ اب فرانس بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے تاکہ مسلم ا±مہ کو پریشان کیا جائے اور ان کے جذبات کو برانگیختہ کیا جائے۔ اس طرح مسلمان اگر مشتعل ہو کر احتجاج کریں تو ان کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ ہر شخص کو اگر من مرضی سے جو کرنے کی اجازت ہے تو پھر مسلم طالبات کو بھی عبایہ پہننے سے روکنا چہ معنی دارد۔
٭٭........٭٭
ملک بھر میں کاروبار اور دکانیں مغرب کے وقت بند کرنے کا فیصلہ
فیصلے اور اعلانات تو ہمارے ملک میں بہت ہوتے ہیں۔ اصل بات ان پر عملدرآمد کی ہے۔ ماسوائے کرونا کے جب موت کا خوف غالب تھا‘ کاروباری مراکز اور دکانیں بند رہیں۔ ملکی تاریخ میں ایساکبھی نہیں ہوا جب کاروباری حضرات نے حکمرانوں کے کہنے پر بجلی کی بچت کےلئے اپنی بچت پر لات ماری ہو۔ اس وقت ملک میں بجلی کا بحران ام المسائل بن کر ہم پر مسلط ہے بجلی چوری لائن لاسز کے علاوہ دیر گئے تک بجلی چوری کرنے والے بے تحاشہ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان کے بل دیکھیں تو شرم آتی ہے کہ لاکھوں کی بجلی جلانے والے ہزاروں کا بل ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں صبح9تا شام5 کاروبار حیات جاری رہتا ہے پھر رات ہو یا نہیں تجارت و کاروبار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں دن بارہ بجے کے بعد تجارتی و کاروباری مراکز کھلتے ہیں‘ دکانیں کھلتی ہیں۔ کسی کو عمل کرانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ دکاندار دل کھول کر بجلی پھونکتے ہیں۔ اس وقت ضرورت ہے بجلی کی بچت صرف قیمتیں بڑھانے سے نہیں ہوتی۔ سخت پلاننگ کرکے بجلی چوروں اور کاروباری وہ تجارتی مراکز کو قابو میں لانا ہوگا۔ شام ہوتے ہی چراغ خانہ غریب کی طرح ساری بتیاں گل کرنا کر ہونگی۔ ورنہ بجلی صارفین کی بتیاں بل ادا نہ کرنے کی وجہ سے خود بخود بجھنے لگیں گی اور شہر در شہر اندھیروں کا راج ہوگا۔ اس لیے حکمرانوں کو اپنے شہروں کو‘ دیہات کو اندھیروں میں ڈوبنے سے بچانے کےلئے ہر حال میں سختی کرنا ہوں گی۔ ہمارے تاجر اور کاروباری حضرات بھی محب وطن ہیں‘ وہ حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کریں گے۔ یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا۔ عوام ان کی قربانیوں کی تعریف کرے گی اور ملک میں بھی یورپ کی طرح 9 سے 5 تک کاروبار کا رواج پڑے گا اور ہم سب پاکستانی نارمل انسانوں والی زندگی بسر کریں گے۔
٭٭........٭٭
شہری کا بیگم کےلئے چاند پر پلاٹ کا تحفہ
یہ واقعی کوئی کہانی لگتی ہے۔ چاند لا کر قدموں میں ڈالنے کے دعوے تو بہت سے لوگ کرتے ہیں مگر چاند کو کسی کے دامن مراد میں لا کر ڈالنے میں کوئی کوئی ہی کامیاب ہوتا ہے۔ شاعر نے اسی ناکام حسرت پر کیا خوب کہا ہے
چاند ملتا نہیں سب کو سنسار میں
ہے دیا ہی بہت روشنی کےلئے
مگر اب کولکتہ کے اس شہری نے اپنی بیگم کے ساتھ کئے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لئے واقعی اسے چاند تو نہیں البتہ چاند پر ایک عدد پلاٹ خرید کر ضرور تحفے میں دے کر ثابت کر دیا کہ ابھی کچھ لوگ ہیں باقی جہاں میں ورنہ یہاں تو دنیا میں پلاٹ دور کی بات‘ بقول بہادر شاہ ظفر”2 گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں“ اس شخص نے اپنی بیگم سے شادی پر وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے چاند لا کر دے گا۔ اب اس نے چاند پر پلاٹ اپنی بیگم کو دیا ہے ہمارے ہاں ابھی تک ”انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند“ کہہ کر معاملات ہینڈل کر لیتے ہیں‘ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ چاند پر کب سے پلاٹ برائے فروخت ہونے لگے ہیں اور پھر اتنی کم قیمت پر کون فروخت کر رہا ہے۔ اس کی تو قیمت اتنی ہے کہ شاہ رخ خاں خرید سکتے ہیں یا عرب شہزادے، عام کروڑ پتی یا ارب پتی بھی وہاں چھوٹا موٹا پلاٹ خریدنے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔ لگتا ہے اس شخص نے اپنی بیگم کا دل خوش کرنے کےلئے یہ ناٹک رچایا ہو۔ چلو اس طرح بیگم بھی خوش ہوگی اور اسے شہرت بھی ملے گی۔ یہ سوال اب سوچنے والا ہے کہ کیا وہاں کسی کو رہنے کی مہلت بھی ملے گی۔ اگر ملی بھی تو شاید کم ازکم ایک صدی تو لگ ہی جائے گی۔ اس وقت تک کون جیتا ہے مگر چلو دل کو تسلی دی جا سکتی ہے کہ میراتو چاند پر بھی پلاٹ ہے۔
٭٭........٭٭
معاشی بحران سے نکلنے کیلئے سب مل کر بیٹھنا ہوگا‘ ورنہ ڈنڈا ۔
یہ بیان آج شیخ جی دے رہے ہیں جو جلسوں میں بڑے فخر کے ساتھ چیختے چنگاڑتے ہوئے کہتے تھے کہ دیکھوں گا یہ فلاں فلاں کیسے باہر جاتا ہے۔ میرا قائد انہیں الٹا ٹانک دے گا۔انہیں جیلوں میں سڑنے کے لئے ڈال دے گا۔ اس وقت اور آج بھی وہ خان کو ہی اپنا قائد اور مرشد قرار دیتے ہیں اور پرویزالٰہی کی طرح فنا بھی الشیخ ہیں۔ کیا زمانہ تھا جب وہ اسی طرح وہ نوازشریف کو اپنا رہبر و قائد قرار دیتے ہوئے ان پر صدقے واری جاتے تھے۔ آج کل شیخ رشید جو کہہ رہے کہ مل بیٹھ کر بات کریں‘ اگر وہ یہی باتیں کچھ عرصہ قبل جلسوں میں‘ پریس کانفرنسوں میں کرتے تو آج ماحول کچھ اور ہوتا۔ اس وقت تو وہ اوئے میں انی پا دیاں گا۔ یہی بات ان کے سیاسی مرشد عمران خان بھی اس زمانے میں اوئے توئے کہتے ہوئے مخالفین کو للکارتے پھرتےتھے۔ آج وقت عجب آگیا ہے۔ راوی کہتا ہے۔ اٹک جیل سے بھی مل بیٹھ کر نہ سہی‘ مل کر چلنے کی صدائیں آرہی ہیں۔ کہاں آگ اگلتی زبانیں‘ کہاں منہ سے پھول جھڑتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر یہی پھول پہلے کھلتے تو آج ہمارے سیاسی صحن چمن میں بہار آچکی ہوتی اور ملک کی معاشی حالت بھی یوں ابتر نہ ہوتی مگر دیکھ لیں آج معاشی بدحالی کس حال پر پہنچی ہے کہ کوئی بھی خوش نہیں۔ لوگ خودکشیاں کررہے ہیں۔ اوپر سے ڈنڈے کا خوف بھی لاحق ہے۔کہیں مولا بخش تواضح کیلئے میدان میں نہ کود پڑے اور پھر دھن دھنا دن سب کو پتہ چل جائے گا‘ کسی کو بھی سر بچانے کا موقع نہ ملے گا۔ ابھی وقت ہے ملکی حالات اور معاشی بہتری کیلئے سب پرچم کے سائے تلے نہ سہی‘ ڈنڈے کے سائے تلے ہی جمع ہو جائیں اور کوئی سلامتی کی راہ نکالیں تاکہ عوام معاشی بحران سے باہر آ سکیں۔