جمعۃ المبارک‘ 2؍ صفر‘ 1443ھ‘ 10؍ ستمبر2021ء
امریکہ دوسرے ملکوں میں مداخلت بند کرکے اپنی غلطیوں سے سب سیکھے: چین
اگر امریکہ والے ایسے مشوروں پر عمل کرتے تو آج اس کی وہ حالت نہ ہوتی جو افغانستان سے دم دبا کر نکلنے کے بعد ہو رہی ہے۔ مگر کیا کریں…؎
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
ویتنام کے بعد افغانستان سے بھی صاحب بہادر امریکہ کو بے آبرو ہوکر نکلنا پڑا۔ اب شاید اس کی وہ پہلی جیسی بدمعاشی بھی برقرار نہیں رہ سکے گی کہ جسے چاہے آنکھیں دکھائے جسے چاہے دھمکیاں دے۔ کسی کی ناکہ بندی کر دی، کسی کے اکائونٹس منجمد کر دئیے۔ دھونس اور دبائو کی یہ پالیسیاں امریکہ کا وتیرہ تھی۔ اس کام میں اسے ہمیشہ یورپی یونین کی بھرپور معاونت حاصل رہی مگر اب ایک طرف ایران ہے، دوسری طرف افغانستان، تیسری طرف شمالی کوریا ہے اورچوتھی طرف چین۔ چاروں طرف سے پھنسے امریکہ کو چاہئے کہ وہ چین کی اس تجویز پر کان دھرے اور دوسروں کے چھابے میں ہاتھ ڈالنے سے گریز نہ کرے کیونکہ ضروری نہیں ہر جگہ اس کی مرضی چلے۔اب دنیا بدل رہی ہے۔ ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ہیں۔ افغان اپنی خودی پہچانتے ہیں۔غافل مسلم امہ بھی بالآخر بیدار ہو ہی جائے گی۔ آج نہیں تو کل، نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر مسلمان متحد ہو جائیں تو پھر امریکہ کا کیا بنے اس لئے بہتر ہے امریکہ، دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کی پالیسی اب چھوڑ ہی دے۔ آخر کب تک امریکی عوام حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی سزا بھگتتے رہیں گے۔
٭٭٭٭
بھارتی میڈیا افغانستان میں گرے طیارے کو پاکستانی بنا کر پیش کرنے لگا
جھوٹ بولنا اور وہ بھی بے تحاشہ بولنا سیکھنا ہے تو کوئی بھارت سے سیکھے۔ اس کام میں انہیں یدطولیٰ حاصل ہے۔ شرم نام کی کوئی چیز انہیں چھو کرنہیں گزری جو انہیں اس کام سے روک سکے اور نہیں تو کم از کم شرمندگی ہی محسوس ہو ان کو۔ اب افغانستان میں دیکھ لیں ایک امریکی جنگی طیارہ جو فنی خرابی کے باعث گرا تھا۔ اسے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بھارتی میڈیا والے پاکستانی بمبار طیارہ کہہ کر پیش کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ جھوٹا میڈیا اپنے ناظرین کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ شاید جھوٹی اطلاعات یا افواہوں کی مدد سے وہ اپنے فوجیوں اور عوام کا مورال بلند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں۔ نہ بھارتی عوام میں اور نہ ہی بھارتی افواج میں اتنی ہمت ہے کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکیں۔ بس یہی ایک حربہ رہ گیا ہے بھارتی حکومت اور اس کی لے پالک میڈیا کے پاس کہ وہ پاکستان کیخلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرکے فلمی بنا کے اپنے عوام کو خوش اور عالمی برادری کو گمراہ کرے۔ آج کل کے جدید دورمیں کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔ حقیقت بہت جلد بے نقاب ہو جاتی ہے۔ جیسے یہ افغانستان میں گرنے والے امریکی طیارہ ، بھارت کی تمام تر مکاری کے باوجود سب کو معلوم ہو گیا کہ یہ پاکستانی طیارہ نہیں ہے۔ اس طرح بھارت کی افغانستان کے معاملات میں پاکستانی مداخلت کا جھوٹا پراپیگنڈا بھی بے نقاب ہو گیا ۔ مگر کیا مجال ہے جو بھارتی میڈیا کو ذرا سی بھی شرم آئی ہو۔ حیا آئی ہو بلکہ وہ بے شرموں کی طرح دانت نکو سے اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے مکھی کھی کھی کر رہا ہے۔
٭٭٭٭
مہنگائی کے ساتھ لوگوں کی آمدن بھی بڑھی ہے: اسد عمر
واہ کیا بات کی ہے وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے۔ لگتا ہے وہ بیانات بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے جاری کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی اور وفاقی حکومت کی منصوبہ بندی میں یکسانیت کا حسن امتزاج ملتا ہے۔ حکمران طبقے کا ہر فرد اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ملک میں اگر مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے تو لوگوں کی آمدن بھی بڑھی ہے۔ اب خدا جانے یہ حال مست مال مست قسم کے لوگ کونسی اور کس کی آمدنی بڑھنے کی بات کرتے ہیں۔ اگر بات عوام کی ہو رہی ہے تو قسم لے لیں، حلف اٹھوا لیں، ان کی آمدنی میں ایک دھیلہ بھی اضافہ نہیں ہوا۔ وہ بے چارے تو کرونا، لاک ڈائون، کریک ڈائون کی وجہ سے پہلی اپنی آمدنی سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ دس کی بجائے اب 2 روپے پر گزارہ کر رہے ہیں۔ اشیائے صرف کیساتھ ساتھ یوٹیلٹی بلز میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ 50 کی چیز 150 کی ہو گئی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس کے باوجود یہ دعویٰ کہ آمدن بڑھی ہے، مجذوب کی بڑ ہی کہلائے گا۔ ہاں مہنگائی ضرور حد سے زیادہ بڑھی ہے۔ جس کی بدولت کرونا دور میں بے کار ہونے والے لوگ زندہ درگور ہو گئے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح میں بے حد اضافہ البتہ ضرور ہوا ہے جسے شاید اسد عمر آمدنی میں اضافہ سمجھتے رہے ہیں۔ حد ہوتی ہے بے حسی کی۔ شاید اسی لئے کہتے ہیں …ع
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے۔
٭٭٭٭
محمد عامر نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لے لیا
عامر ایک اچھا کھلاڑی ہے۔ مگر کرکٹ کی روایتی سیاست کی وجہ سے وہ بھی بھریا میلہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب تک مصباح الحق اور وقار یونس پی سی بی انتظامیہ میں موجود ہیں وہ ملکی کرکٹ نہیں کھیلیں گے۔ انہیں شاید ان مہربانوں کی مہربانیوں کا تلخ تجربہ تھا۔ اس لیے وہ ملکی کرکٹ سے دلبرداشتہ ہو کر ریٹائر ہو گئے۔ مگر غیر ملکی کرکٹ سے ان کا رابطہ برقرار رہا اور وہ بیرون ملک کرکٹ کھیلتے رہے۔ اس طرح ان کی پریکٹس جاری ہے اور وہ اپنی کارکردگی دکھاتے رہے۔ اب کہہ رہے ہیں کہ اب میں ملک کی طرف سے کھیلنے کے لیے تیار ہوں۔ یہ اچھی بات ہے۔ ملک کی طرف سے کھیلنا ان جیسے باصلاحیت کھلاڑی کے لیے ضروری ہے مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں ہمیں کتنی ہی سازشوں کا سامنا کیوں نہ ہو ہمیں بہرحال ملک کے ساتھ اپنا عہد و فا یاد رکھنا چاہئے۔ کسی بھی حال میں ملکی کھیل ہو یا ادارے ان سے جڑے رہنا چاہئے۔ اب امید ہے پی سی بی والے بھی عامر کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں گے۔ اگر ٹیم میں ان کی ضرورت ہے تو انہیں ضرور شامل کریں گے۔ کھلاڑی تو پیدا ہی کھیل کے لیے ہوتا ہے ۔ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی ہے اسی طرح اچھا کھلاڑی بھی کھیل کے بغیر نہیں رہ سکتا۔