ایک لاکھ سے زائد اموات کا ذمہ دار کون؟؟؟؟

آج کشمیر میں لاک ڈاؤن کا سینتیسواں روز ہے، سنسنی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، زندہ انسان موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کیا کوئی مہذب ملک اس عمل کی حمایت کر سکتا ہے، کیا دنیا کو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ جب ہم مخالفت کی بات کرتے ہیں تو کیا صرف مخالفت سے کشمیر کے لاکھوں افراد کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ کیا اب تک بھارت نے ان مخالفانہ بیانات کی وجہ سے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ جہاں پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں مسئلہ زیر بحث آئے وہاں اس حوالے سے سنجیدگی اور توجہ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔ آج سینتیس روز ہو چکے ہیں کیا کوئی جانتا ہے کہ ان پانچ ہفتوں میں کیا ظلم برپا ہوا ہو گا۔ وہ بھارت جو دہائیوں سے کشمیریوں پر ظلم کر رہا ہے کرفیو کے سینتیس دنوں میں جو ظلم کیا گیا ہو گا وہ تاریخ کو شرما دے گا۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان دنوں میں کشمیریوں کے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔ جب نمازوں پر پابندی لگا دی جائے، محرم الحرام کے جلوسوں پر فائرنگ کی جائے تو عام دنوں میں سختی اور شدت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔ گزشتہ دنوں میں اگر دیکھا جائے تو بیرونی دنیا نے اس معاملے میں روایتی عدم توجہ کا مظاہرہ کیا ہے لیکن یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک موقف اپنایا ہے۔ دنیا کو واضح پیغام دیا ہے اور بھارت کی یزیدی حکومت کا ظلم کھلے الفاظ میں دنیا کے سامنے بیان کیا ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں نے بھی بہترین انداز میں کشمیری بھائیوں کا مقدمہ لڑا ہے۔ ہر بڑے ملک میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں، دنیا کو بتایا گیا ہے کہ نریندرا مودی کی حکومت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے کتنی طاقت استعمال کر رہی ہے اور بدترین انداز میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
وزارت خارجہ پر تنقید ہوتی رہی ہے لیکن شاہ محمود قریشی کی وزارت نے حق ادا کر دیا ہے انہوں نے فعال کردار ادا کر کے تمام اہم ملکوں تک پاکستان کا پیغام پہنچانے کے ساتھ ساتھ بھارتی مظالم کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ اس مرتبہ غیر روایتی سفارتکاری بھی کی گئی۔ اب اس کے اثرات نظر آنا شروع ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل باچلیٹ نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس سے خطاب میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات سے انسانی حقوق متاثر ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کشمیر میں کرفیو میں نرمی، بنیادی سہولیات تک فراہمی اور کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں فیصلہ سازی میں شریک کرنے پر زور دیا ہے۔ مشیل باچلیٹ نے کہا کہ کشمیر میں سیاسی قیادت قید ہے، پرامن مظاہروں پر پابندی ہے۔ انٹرنیٹ اور ذرائع مواصلات کا معطل ہونا تشویشناک ہے۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے آسام کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے انیس لاکھ افراد کی شہریت کے منسوخ ہونے سے پیدا ہونیوالی بے چینی اور غیر یقینی کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے انہوں نے بھارت پر زور دیا ہے کہ متاثرہ افراد کو ملک بدر یا قید نہ کیا جائے۔ یہ ہے بھارت کا وہ مکروہ چہرہ جسے دنیا جانتے ہوئے بھی نظر انداز کر رہی تھی۔ ماضی میں ہماری حکومتوں کی بھی کمزوری رہی ہے کہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو نمایاں انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے دو ٹوک پالیسی اختیار کرتے ہوئے کشمیر میں ہونیوالے ظلم کو ترجیحی بنیادوں پر دنیا کے سامنے رکھنے اور روایتی عدم توجہی کو بدلنے کی کوشش ضرور کی ہے یہ مشکل مرحلہ ضرور تھا کیونکہ دنیا نے ہمیشہ مسلم دشمنی میں مسئلہ کشمیر پر تعصب ہی برتا ہے۔ لاکھوں افراد اس تعصب کی بھینٹ چڑھتے رہے لیکن کسی نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مسلمان شہید، زخمی، اور معذور ہوتے رہے لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔ گزشتہ برسوں میں انسانی حقوق کی اتنی شدید خلاف ورزیاں ہوئی ہیں کہ اعداد و شمار پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔1989 سے 2019 تک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد کو شہید کیا گیا ہے۔ زیر حراست ساڑھے آٹھ ہزار افراد کو شہید کیا گیا ہے۔ ایک لاکھ چونسٹھ ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ بائیس ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئی ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوئے ہیں۔ گیارہ ہزار سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔ لگ بھگ چار ہزار افراد پیلٹ گنوں کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں۔ دوہزار سولہ سترہ کے دوران تین سو پچپن افراد کو قتل کیا گیا، سات ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، بتیس خواتین بیوہ ہوئیں، ستانوے بچے یتیم اور سات سو سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ دوہزار سترہ اٹھارہ میں تین سو پچاس سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، پچیس سو سے زائد افراد گرفتار کیے گئے، تیس سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں، ستر بچے یتیم اور ایک سو چالیس سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ دو ہزار اٹھارہ انیس میں دو ہزار آٹھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، چار سو سے زائد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا،اکتیس خواتین بیوہ، پینتالیس سے زائد کی عصمت دری اور ساٹھ سے زائد بچے یتیم ہوئے۔ بھارت کی طرف سے دو ہزار سولہ میں تین سو اسی سے زائد مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی میں چالیس سے زائد اموات اور ایک سو پچاس کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے۔ دو ہزار سترہ میں انیس سو ستر مرتبہ ہونے والی خلاف ورزی میں پینتیس اموات اور دو سو پانچ افراد زخمی ہوئے۔ دوہزار اٹھارہ میں دو ہزار سات سو چوراسی مرتبہ ہونے والی خلاف ورزی میں اکیس اموات اور دوسوبیس افراد زخمی ہوئے۔ جولائی دوہزار انیس تک چودہ سو اسی مرتبہ ہونے والی خلاف ورزی میں پندرہ اموات اور ایک سو پانچ افراد زخمی ہوئے۔ اگست دوہزار انیس میں دو سو دس مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی میں ستر اموات اور ایک ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔
قارئین کرام یہ اعداد و شمار بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور جنگی جنون کو ظاہر کر رہے ہیں۔ پاکستان دشمنی میں نریندرا مودی کی حکومت کے ظالمانہ اقدامات نے خطے میں عدم استحکام پیدا کیا ہے۔ طاقت کا توازن خراب ہونے سے دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری ان ممالک کی ہے جو ہر وقت پاکستان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ ہم دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے جان و مال کا نقصان برداشت کرتے ہیں الٹا ہمیں طعنے سننا پڑتے ہیں۔ اول دہشت گرد بھارت اسکی مذہبی تنظیمیں ہیں۔ یہ سارا کیا دھرا نہیں انتہا پسند ہندوؤں کا ہے جس کی سرپرستی نریندرا مودی کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اب بھی اس مسئلے پر روایتی سستی کا مظاہرہ کیا تو اس کے نقصانات تباہ کن ہو سکتے ہیں۔