سولہ اکتوبر انیس سو ستاسی کو پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین میچ آخری اوور تک جا پہنچا۔ پاکستان کو جیت کے لیے چودہ رنز اور ویسٹ انڈیز کو ایک وکٹ کی ضرورت تھی۔ قذافی سٹیڈیم میں ہزاروں شائقین کی نظریں لیگ سپن باؤلنگ کو پرکشش بنانے والے عبدالقادر پر تھیں۔ لیگ سپنر پہلی گیند پر اور سلیم جعفر دوسری گیند پر سنگل لیتے ہیں پھر عبدل دو رنز بناتے ہیں پھر تیز گیند باز کو سیدھا چھکا لگاتے ہیں تو کراؤڈ میں نئی زندگی آ جاتی ہے۔ سب کھڑے ہو جاتے ہیں، بھنگڑے ڈالتے ہیں، اچھل کود کرتے ہیں، ہر کوئی قادر کو دیکھنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ سب کی نظریں جادوگر لیگ سپنر عبدالقادر پر ٹک جاتی ہیں۔ ایسے مواقع کسی بھی کھلاڑی کے لیے ناقابل فراموش ہوتے ہیں جب پوری قوم کی امیدیں اس سے وابستہ ہوں، ساری قوم اس کی طرف دیکھ رہی ہو۔ پاکستان کو اس میچ میں کامیابی بھی ملی، کورٹنی والش کی سپورٹس مین سپرٹ بھی اس میچ کی خاص بات تھی لیکن عبدالقادر کا چھکا آج بھی شائقین کے دلوں پر نقش ہے۔ عبدالقادر نے دنیا بھر میں تمام بڑی ٹیموں کے خلاف ایسی پرفارمنس دی ہے کہ سٹیڈیم میں موجود شائقین کی نظریں ان سے نہیں ہٹتی تھیں۔ کھیل کے میدانوں سے رخصت ہونے کے بعد بھی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی جس محفل میں جاتے لوگ ان کے اردگرد جمع ہو جاتے۔ یوں کہیے کہ وہ محفلوں کی جان ہوا کرتے تھے۔ ٹی وی چینلز ہر اہم موضوع پر ان کی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ کوئی بھی اہم مسئلہ ہو، کرکٹ بورڈ کا کوئی فیصلہ ہو، قومی ٹیم کی کارکردگی پر بات کرنی ہو، کوچز کی تعیناتی، کھلاڑیوں کی سلیکشن پر بات کرنی ہو تو سب یہی چاہتے تھے کہ عبدالقادر کا بیپر کریں تاکہ اچھا تنقیدی جائزہ سننے کو ملے۔ وہ تمام چینلز کی اولین ترجیح ہوا کرتے تھے۔ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق مینجر اظہر زیدی جب بھی اپنی کلب پی اینڈ ٹی جمخانہ کا کوئی فنکشن کرتے باؤ جی نے کبھی انکار نہیں کیا ہمیشہ کپتان جی فنکشن میں شریک ہوتے۔ کسی شادی کی تقریب میں جاتے تو سب اردگرد جمع ہو جاتے پھر قہقہے ہوتے، باؤ جی کی باتیں، چٹکلے اور پرانے واقعات کا ایسا دور چلتا کہ ایک لمحے کے لیے بھی نظریں عبدالقادر سے نہ ہٹتیں۔ رکو رکو میری بات سنو یہ ہمیں کرکٹ سکھائیں گے ہم نے اللہ کی رحمت سے دنیا کو بتایا ہے کہ لیگ سپن باولنگ کیا ہوتی ہے۔ چھ چھ گگلیاں کر دی ہیں، گوروں کے بزرگوں کو بھی نہیں پتہ چل سکتا کہ ہم کیسے لیگ سپن کرتے ہیں اور یہ ہمارے بورڈ والے گورے رنگ سے متاثر ہو کر انہیں ہمارے بچوں کی کوچنگ کے لیے لے آتے ہیں۔ الٹی گنگا ہے وہ ہم سے سیکھتے ہیں اور انہیں اپنے بچوں کو سکھانے کے لیے بلاتے ہیں۔ یہ سارے بھیگی بلی بن کے بیٹھ جاتے ہیں عمران خان کے سامنے، یہ آپکا بھائی ہے جو اللہ کی رحمت سے عمران خان کے سامنے بولتا ہے کہ کپتان جی رکو رکو آپ کیسے ایسا کر سکتے ہیں۔ جب وزیراعظم ہاوس میں وزیراعظم عمران خان نے محکمہ جاتی کرکٹ کے خاتمے کی بات کی تھی تو سب خاموش تھے عبدالقادر ہی بولا تھا۔ وہ میرا کپتان ہے اللہ نے اسے عزت دی ہے اس جیسا بہادر شخص میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ عبدالقادر پہلے دن سے اس کے ساتھ ہے۔ جب دیگر کرکٹرز سیاسی مصلحتوں کا شکار تھے عبدالقادر اس وقت بھی عمران خان کی سیاسی حمایت کرتا تھا۔ کوئی سوال کرتا باؤ جی عمران خان سے اتنی دوستی ہے لیکن کرکٹ بورڈ میں آپکو کوئی ذمہ داری تو ملی نہیں، عبدل کا جواب ہوتا میری بات سنو عمران خان کو ایک میسج کروں جو کہوں وہ انکار نہیں کر سکتا لیکن میرا اس سے تعلق کوئی ایسا ہے کہ نوکری کے لیے اسے کہوں گا۔ عبدالقادر ایسا نہیں کر سکتا۔ بورڈ کو ضرورت ہو تو خود بات کر لے، ہمیں بھی رب کی رحمت سے کسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
عبدالقادر رونق محفل، جان محفل تھے،منوں مٹی دفن ہونے سے پہلے تک ان کی یہ خاصیت برقرار رہی۔ لاہور کے قذافی سٹیڈیم سے دربار حضرت میاں میر عبدالقادر سے محبت کی روشن داستان ہے۔ جگہ جگہ ان کی محبت نظر آتی ہے۔ عبدالقادر کے انتقال سے پاکستان کرکٹ حقیقی نقاد اور تصویر کا دوسرا رخ دکھانے والے بیباک شخص سے محروم ہو گئی ہے۔ان کی نماز جنازہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ پاکستان کے لوگ ان سے کتنی محبت کرتے تھے۔ ان کا آخری دیدار کرنے کے لیے ہزاروں افراد کی موجودگی اور ان کے اہل خانہ سے جوق در جوق تعزیت کے لیے آمد گگلی ماسٹر سے عقیدت ہے۔ وہ صرف لیگ سپن باؤلنگ کے ہی جادوگر نہیں تھے، الفاظ کے بھی جادوگر تھے۔ ایک مرتبہ ان سے ملنے والا دوبارہ ملنے کی خواہش رکھتا تھا۔انتقال سے چند روز قبل ہونے والی ملاقات کے دوران انکی پوتیاں آئیں تو انہیں اپنی کرسی پر بٹھا پر جھولے دینے لگے خود دوسری کرسی پر بیٹھے، پھر کہنے لگے پتری انکل آئے ہیں وہ کونسا شربت بڑا اچھا بناتی ہو، بچی نے کہا جام شیریں کہتے ہاں ہاں لاؤ نا، ہم نے کہا کہ باؤ جی سادہ پانی منگوا لیں شربت نہیں پیتا کہنے لگے اور یار حافظ صاحب کبھی کبھی بدپرہیزی کر لیا کریں۔ پھر بتانے لگے آج تک میری ویسٹ نہیں بڑھی کرکٹ کھیلتے وقت پینٹ پہنتا تھا آج بھی فٹ آتی ہے۔ اب تو بیٹے میری اور میں ان کی پینٹ پہن لیتا ہوں۔ بہت پرانی بات ہے ایک مرتبہ ہم ان کے انٹرویو کے لیے گئے اس وقت ان کے گھر میں پریکٹس کے لیے انڈور کی سہولت موجود تھی۔ ہم نے فرمائش کی کہ عبدل بھائی تین بالز کھلائیں، خوشی
خوشی رضامند ہوئے پھر تین کے بجائے چھ بالز کروائیں۔
کرکٹ بورڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر عبدالقادر کی تنقید کے بعد ان کے گھر گئے تو اس کے بعد لیگ اسپنر نے باوجود اختلافات کے ان کا نام لینا چھوڑ دیا۔ پوچھنے پر کہنے لگے یار حافظ صاحب کوئی بندہ چل کر گھر آ جائے تو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ دوسری طرف کرکٹ بورڈ اتنا ظالم ہے کہ تنقید کی وجہ سے عبدالقادر کی پنشن بھی روک لی تھی، کرکٹ بورڈ کے ایک موجودہ ڈائریکٹر نے اپنی جونیئر سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کو گراؤنڈ میں اس دلیل کے ساتھ عبدالقادر سے ملنے کے لیے روکنے کی کوشش کی یہ پی سی بی پر بہت تنقید کرتے ہیں۔
عبدالقادر نے بارہ دری سے قذافی سٹیڈیم اور سٹیڈیم دربار حضرت میاں میر کا سفر بڑی آن اور شان کے ساتھ طے کیا ہے۔ اس سفر میں انہوں نے محبتیں بانٹیں، کانٹے اکٹھے کیے، دوستی نبھائی ہے، علم منتقل کیا ہے، حق کا ساتھ دیا ہے، سچ کی آواز بلند کی ہے، وقت کے فرعونوں کے سامنے ڈٹے رہے ہیں۔ اس سفر میں عبدالقادر نے
کرکٹرز کے حقوق کی بات کی ہے، سینکڑوں کرکٹرز اور پاکستانیوں کو بیروزگاری سے بچانے کے لیے آواز بلند کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عبدالقادر کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے اور ان کے خاندان کو صبر جمیل عطائ فرمائے۔ آمین
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38