شہید اور شہادت کا تصور اور فلسفہ یہ ہے کہ شہید جب جان جام شہادت نوش کرتا ہے تو اسکی روح کو اْسی وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر کر دیا جاتا ہے اور یہ کہ شہید اپنی پیاری اور نہایت قیمتی جان کا نذرانہ پیش کر کے اللہ تعالیٰ کے دین کے فروغ اپنی قوم اور اپنے ملک و ملت کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عالم برزخ، یوم محشر اور جنت میں اپنے بندوں کو جو نعمتیں،سعادتیں اور برکتیں و انعام و اکرم دینے کا وعدہ فرمایاہے شہادت کی عظیم موت کے دروازے سے گزرتے ہی شہید اللہ تعالیٰ کے اْن سارے وعدوںکو عملاً پا لیتا ہے۔ شہادت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
قرآن کے الفاظ میں شہیدوں کو "اللہ کی راہ میں قتل کئے گے" کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان انعام یافتہ بندوں کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان الحمید میں بڑے دلنشیں انداز و الفاظ میں کیاہے "ا ور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں اْن کو مردہ مت کہو ( مردہ نہیں ) بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ( اِن کی زندگی کا ) شعور نہیں" ( سورۃ البقرہ آیت نمبر 154) اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا ــ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں تم اْن کو مردہ مت خیال کرو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور اْنہیں رزق بھی دیا جاتا ہے‘‘ سورۃ آل عمران آیت نمبر 169۔
حضرت امام حسین ؓ کی شہادت آپؓ کے مقام شہادت اور آپؓ کے زمانہ شہادت کے متعلق نبی کریم نے صحابہ کرامؓ کو پہلے ہی بتا دیا تھا۔ حضرت اْم سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز حضرت حسن ؓ اور حضرت حسینؓ میرے گھر میں رسول کریم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرائیل ؑخدمت رسول اللہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے محمد بے شک آپ کی اْمت ( میں بعض لوگوں کی جماعت ) آپ کے اس بیٹے کو قتل (شہید(کر دے گی یہ کہہ کر اْنہوں نے آپ کو اس جگہ کی تھوڑی سی مٹی بھی دی۔ رحمت عالم نے اس مٹی کو اپنے سینے سے لگایا اور مغموم لہجے میں ارشاد فرمایا اے اْم سلمہ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے گی تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا (حسین ) شہید ہو گیا ہے۔ نبی کریم ؐنے دریائے فرات کے کنارے کربلا کے مقام کی بھی نشاندہی کر دی تھی۔ قمری سال کا آغاز ماہ محرم الحرام سے اور اختتام ماہ ذوالحج پر ہوتا ہے۔ دس محرم الحرام کو حضرت امام حسین ؓ کی شہادت و قربانی اور دس ذی الحج کو حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی یاد گار ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آفاقی مذہب اسلام ابتدا سے لیکر انتہا تک قربانیوں کا نام ہے گویا ایک مسلمان کی تمام زندگی ایثار و قربانی سے عبارت ہے۔
آج بھی معرکہ کرب وبلا ، عراق ، فلسطین ، شام ، افغانستان ، کشمیر اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف برپا ہے۔کشمیر میں بھارت نے آگ خون اور بارود کا ہلاکت خیز کھیل شروع کر رکھا ہے۔کشمیریوں کو ان کے اپنے وطن سے بے وطن کرنے اور ان کی شناخت چھیننے کی مودی سرکار سازش رچا رہی ہے۔آج ایک ماہ سے بھی زائد ہوگیا کہ وادی میں کرفیو لگا کر اسے جیل،عقوبت خانہ اور تشدد گاہ بنا دیا گیا ہے۔بھارت کے کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے یکطرفہ ،غیر قانونی اور غیر انسانی اقدام کے بعد ہر گزرتے دن کیساتھ جنگ کے بادل گہرے ہورہے ہیں۔اس موقع پر مسلم امہ کو مظلوم کشمیریوں کی مدد کو آنا چاہیے تھا مگر وہ خود انتشار اور نفاق کا شکار ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے تمام مصلحتیں تیاگ کر کشمیروں کا ساتھ دینے کا عہد کرنے کے ساتھ عملی اقدام بھی کئے جارہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت کی اینٹ کا جواب پتھر سے دینگے ۔ان کا یہ بیان قوم کی امنگوں کے عین مطابق اور پتھر پر لکیر کی حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان کی طرف سے جنگ ٹالنے کی کوششیں کی گئیں مگر جنگ کی پوری تیاری ہے اور قوم میں جذبۂ حسینی موجود ہے۔کشمیری بھی اپنی جدوجہد کو اس مقام پر لے گئے ہیں جس سے یہ عہد اور عزم جھلکتا ہے…؎
سرداد ،نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ است حسین
آج ہم قومی اور ملی سطح پر انتشار و نفاق کا شکار ہیں۔انہیں ختم کرنے کیلئے واقعہ کربلا سے سیکھنے درس اور سبق لینے کی ضرورت ہے ۔آج ہمیں متحد ہونے اور ایثار کے جذبے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے تاکہ ہم دشمنان ملک و ملت کے ناپاک عزائم کو شکست دے سکیں اور اسی میں ہماری بقا ہے۔ آج کا دن ہمیں اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جو نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے دین کی حفاظت و حرمت کے لیے معرکہ کربلا میں پیش کی، واقعہ کربلا ہمیں اعلیٰ مقاصد کے حصول کی خاطر ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے، استقامت حق کا حصول ہی وہ مشن ہے جس کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا۔ آج کا دِن ہمیں نواسہ رسولؐ اور جگر گوشہ بتولؓ کے عظیم افکار و اعمال کی یاد دلاتا ہے، حق و باطل کی لڑائی اس دور میں بھی جاری ہے۔ حضرت امام حسین ؓ نے اپنی لازوال قربانی سے یہ ثابت کیا کہ باطل جب بھی حق سے ٹکرایا ہے نیست و نابود ہوا ہے ثابت قدمی اور استقامت کی یہی مثال ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ وطن عزیز کے حالات کو دیکھتے ہوئے آج ہمیں متحد و منظم ہونے اور ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ دینے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے تاکہ جہاں ہم دشمنان ملک و ملت کے ناپاک عزائم کو شکست دے سکیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024