قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعدکربلا
کربلا میں اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر حسین ابن علیؓاور ان کے ساتھیوں نے دین مصطفوی کو زندہ کردیا۔وہ اپنے خون کا نذرانہ دے کر بارگاہ نبویؐ میں سرخرو ہوگئے۔آج یومِ عاشور پر سوا ارب سے زائد اہلِ اسلام حضرت امام حسینؓ کی بے پایاں قربانی کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ان کی لا زوال قربانی پر خراجِ عقیدت اور سلامِ محبت پیش کیا جارہا ہے۔آج کتنے لوگ ہیں جو یزید پر لعنت نہیں بھیجتے۔اسلامی دنیا کا کوئی خطہ قریہ اور گلی ایسی نہیں جہاں امام حسینؓکے نام پر نام رکھنے والے موجود نہ ہوں۔یزید کے نام پر کسی نے اپنی اولاد کا نام رکھا؟ ایسا ہی پست مرتبہ و مقام اور ننگ و نام یزید کے حواریوں کے حصے میں آیا۔ وقتی مفادات و مقاصد کا حصول ان کو نفرت و رسوائی کی پستیوں میں لے گیا۔سیدہ زنیب بنت علیؓ، امام حسینؓ ؓکی ہمشیرہ کا یزید کی عدالت میں خطاب تاریخی نوعیت کا ہے کیونکہ سیدہ زینبؓ نے اپنے نانا اور والد کی میراث کو قائم رکھتے ہوئے جس دلیری سے یزید کو للکار ا وہ اسلامی تاریخ کا اہم جز بن گیا۔ سانحہ کربلا کے بعد نبی ؐ کے خاندان اور شہدائے کربلا کے بریدہ سر جب دمشق میں یزید کے روبرو پیش کئے گئے تو روایت کے مطابق یزید نے سر مبارک کی شناخت سے متعلق استفسارکیا جس پہ بی بی زینبؓنے اعتراض کیا۔ یزید نے دریافت کیا کہ ’’ یہ عورت کون ہے؟‘‘ بی بی زینبؓنے کہا۔’’ تم ان سے کیوں پوچھ رہے ہو؟ مجھ سے پوچھ میں تمہیں بتاؤں گی۔ میں محمدؐ کی نواسی اور فاطمہ ؓ کی بیٹی ہوں۔ اسکے بعد سیدہ زینبؓ نے اپنا خطاب شروع کیا: ’’ شروع اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا ہے۔تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے جو تمام دنیا کا رب ہے۔ سلامتی ہو میرے نانا جو اللہ کے رسولوں کے رہنماہیں اور سلامتی ہو انکی اولاد پر۔اے یزید کیا تمہیں لگتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی شہادت اور تمہارے قیدی بن جانے سے ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنے پہ مجبور ہیں؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ قابل احترام شخصیات کوقتل کرنے کے بعد تم خود قابل احترام بن گئے ہواور اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور رحم آپ کے ساتھ ہے؟ تم بھول رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے۔ کافر ویہ نہ سمجھوکہ ہم تمہیں وقفہ دے رہے ہیںہم تمہیں ڈھیل دے رہے ہیں کہ تم اپنے گناہوں میں اضافہ کرو جس کے بعدذلت آمیز سزاتمہارا مقدر ہوگی۔ ( سورۃ آل عمران آیت 187)
سیدہ زینب کے خطاب سے یزید کے دربار کے درو دیوار ہل گئے۔اس کے درباری مبہوت ہوگئے،انہیں نبی ؐ کی بیٹی کے ایک ایک لفظ پر یقین تھا مگر مصلحتوں کو قربان نہ کرسکے جس کے باعث ان کے حصے میں بھی یزید کی طرح ذلت و رسوائی آئی۔اہل ایمان کو ہمیشہ کربلائوں کا سامنا رہا ہے یزید آتے رہے،ان کے ظلم کا ہاتھ روکنے کیلئے حسینیت والا کردار بھی کبھی معدوم نہیں ہوا کربلا کے تپتے صحراؤں میں معصوم اور مظلوم بچوں کی اگر پکار جاری رہی تو سیدہ زینب ؓ کی باطل کو للکاربھی کبھی سرگوشی نہیں رہا۔ہردور حق یزید کے سامنے برہنہ برہان بن کر ڈٹا رہا اور پھر ہمیشہ سچ ہی سرخرو ہوا۔ ایک ایک کربلا کشمیری مسلمانوں پر بھی بپا ہے۔فلسطین کے مسلمان بھی اسی کربلا سے گزر رہے ہیں۔کشمیر تو حد ہوگئی ہے۔ظلم و بربریت کی انتہا ہوگئی ہے۔بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے ظالمانہ،جارحانہ ،غیر اخلاقی اور یکطرفہ اقدام کے خاتمے کو سوا ماہ ہوگیا۔اس دوران کشمیریوں کو حقیقی کربلا کا سامنا ہے۔ان کا راشن بند،پانی بند،وہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے یکسر محروم کردیئے گئے۔پانچ اگست سے کرفیو نافذ ہے۔کشمیریوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ان کر ستم کیلئے کیا سات لاکھ ستمگر فوجی ہلاکت خیز اسلحہ سے مسلح کم تھے؟ کہ ان میں دولاکھ مزید سفاکوں کا اضافہ کردیا گیا۔کشمیریوں کے جذبے سے بھی کربلا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔بچے دودھ کو بلک رہے ہیں،مریض ادویات کی قلت کے باعث موت کی آغوش میں جارہے ہیں،کشمیریوں کے انسانی حقوق معطل ہیں۔ہر گھر کے باہر ایک فوجی بندوق تانے کھڑا ہے مگر کشمیری پابندیوں کو خاطر میں نہیں لارہے۔کربلا والوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے باطل کو للکاررہے ہیں۔کرفیو کی پابندیاں توڑ کر پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے بھارتی فورسز کی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔وہ اپنے حق خود ارادیت اور ریاست سے کسی طوردستبردار ہونے کو تیار نہیں۔بھارت کشمیر کی تاریخ کے ساتھ جغرافیہ بھی بدلنا چاہتا ہے،مگر کشمیری کسی صورت جبر کے حربوں کے سامنے جھکنے پر آمادہ نہیں۔کشمیریوں کے اس جذبے سے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ایک رباعی کے شعر یاد آگئے:
شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
شاہ کا مطلب ہے روحوں کا مالک۔ بادشاہ کا مطلب ہے جسموں کا مالک۔شاہ است حسین، بادشاہ است حسین!اسلام کو ملوکیت سے خطرہ تھا۔ اس اسلام کو حسین نے پناہ دی۔ یہ بیشتر لوگوں کا دین ہے۔ ان کے لیے حسین دین پناہ ہیں۔ سر دے دیا یعنی قتل ہونا قبول کرلیا لیکن ہاتھ نہیں دیا یعنی یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔آج مسلم امہ کو اپنا کھویا وقار پانے کیلئے اپنے اندر حسینیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ کفرکی ظلمت ہمیں اندھیروں کی گہرائی میں لے جائے گی۔
آب بہاراں نہیں ہے قطرہ کہاں سے ٹپکا
آج دسویں محرم ہے شائد رویا ہو فلک
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38