ڈیم بناؤ مہم
وزیراعظم عمران خان کہنا درست ہے کہ پاکستان نے نئے ڈیمز بنا کر پانی ذخیرہ کرنے کی جامع منصوبہ بندی نہ کی تو 2025ء میں قوم کو خدانخواستہ خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے ڈیم فنڈز کا جذبہ قابل قدر ہے بلاشبہ یہ کام حکومتوں کا تھا مگر اہل اقتدار نے مصلحت اور جماعتی مفادات کی دیوار عبور کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ وزیراعظم نے 7 ستمبر کو تارکین وطن سے اپنے پہلے خطاب میں ہر اوورسیز پاکستانی سے ہزار ڈالر عطیہ کرنے کی درخواست کی تھی دودن میں وزیراعظم کی اپیل کا مثبت نتیجہ نکلا الحمدﷲ تارکین وطن تیزی سے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔ پرسوں اسٹیٹ بنک نے عدالت عظمیٰ میں رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں بتایا گیا اب تک ایک ارب 93 کروڑ ڈیم فنڈز میں جمع ہو چکے ہیں۔ ایس ایم ایس سروس سے 5 کروڑ 75لاکھ سے موصول ہوئے۔ بنک دولت آف پاکستان کے حکام نے اوورسیز پاکستانیوں کے جذبہ خیرسگالی کی بھی تعمیر کی۔ پاکستان ان دنوں واٹر کرائسس کی زرد میں ہے۔ چین‘ امریکہ ‘ بھارت اور دیگر بڑے ممالک نے لانگ ٹرم پلاننگ سے خود کو اور اپنی قوم کو محفوظ کر لیا۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں 120 سے 170 دن تک پانی محفوظ کرنے کا ذخیرہ اور ذرائع موجود ہیں جبکہ ہمارے پاس 30 دن کی سہولت … اگر ہماری حکومتیں سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتیں اور آبی ذخائر میں مسلسل و بتدریج اضافہ کا چراغ روشن رکھتیں تو آج ملک و قوم کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ پاکستان میں توانائی بحران بڑا چیلنج بنا چکا ہے ، بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور اس سے دوستی تو دور کی بات خیر سگالی کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تو پھر ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے یعنی قلت آب دورکرنے اور ڈیم بنانے کی طرف توجہ کیوں نہیں دی ، سندھ طاس معاہدے پر ہی نظر ڈالیں تو اس میں ہماری اپنی لاپروائی چیختی چنگاڑتی ہوئی نظرآئے گی ۔ دوسری طرف کالاباغ ڈیم سیاست کی نذر کرنے میں کسی اور کا نہیں ہمارے ہی سیاستدانوں اور وڈیروں کی ذاتی مفاد پرستی شامل ہے ، اس کو بھی چھوڑیں کالاباغ ڈیم نہیں بن سکا تو صرف آزاد کشمیرکو دیکھ لیں جہاں نیلم جہلم ہائیڈروپراجیکٹ، کوہالہ پاور پراجیکٹ، جاگراں ہائیڈروپاورپراجیکٹ، گل پور پاورپراجیکٹ ، سمیت چند ایک دیگر منصوبے جو عرصہ تیس سال سے مکمل نہیں ہوسکے تو اس میں کس کا قصور ہے ؟ آزادکشمیر میں ان منصوبوں پر کام ہوجاتا تو آج پاکستان میں نہ بجلی کا بحرا ن ہوتا نہ مہنگی بجلی پیدا ہوتی نہ گردشی قرضوں کا شکنجہ پاکستان کی معیشت کو جکڑتا ، اس کو بھی چھوڑیں ، داسوڈیم ، بھاشا ڈیم ، مہمند ڈیم جیسے کئی منصوبے ہم مکمل کرسکتے تھے جس سے پانی کے بحران کا بھی دوردور تک نشان نہ ہوتا نہ توانائی کا بحران قومی معیشت کا دیوالیہ نکالتا ، بہرحال اب گزشتہ پانچ سال کے دوران نیلم جہلم ہائیڈروپراجیکٹ جیسے تیسے مکمل ہوچکا ہے تاہم یہ اپنی اصل لاگت سے کئی گنا زیادہ لاگت سے مکمل ہوا ہے ، سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ آج ملک میں واٹر ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ معاملہ اب زندگی اور موت کا بن چکا ہے ، ڈیم بنانے کے لئے سپریم کورٹ نے فنڈز بھی قائم کردیا ہے اور بڑے پیمانے پر مہم بھی جاری ہے ۔ ماہرین پاکستان میں ڈیموں خاص طورپر دیامیر بھاشا ، اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے جن آراء کا اظہار کررہے ہیں ان میں سے ایک بھی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ نانگا پربت پاکستان کا دوسرا اور دنیا کا نواںبلند ترین پہاڑ ہے، کوہ پیما اسے کلر مانٹین بھی کہتے ہیں، یہ پر اسرار پہاڑ گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر میں واقع ہے، نانگا پربت کے دامن میں فیری میڈوز جیسی خوبصورت وادی ہے اور اس وادی سے نیچے چلاس اور چلاس سے 41 کلومیٹر کے فاصلے پر بھاشا گائوں آباد ہے ۔ نانگا پربت کے گلیشیئرز سے درجنوں ندیاں نکلتی ہیں یہ بھاشا کے قریب پہنچ کر دریائے سندھ میں گر جاتی ہیں، پرویز مشرف نے 2006 میں یہاں بھاشا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا، اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے 2007 میں اس کا سنگ بنیاد رکھ دیا پیپلز پارٹی حکومت آئی تو یہ ڈیم نئی حکومت کو ترکے میں مل گیا۔اس دوران ضلع کوہستان اور ضلع دیامیر میں ڈیم کی ملکیت پر جھگڑا کھڑا ہو گیا، بھاشا کوہستان میں تھا اور پانی دیامیر سے آتا تھا لہذا جھگڑا جائز تھا ،حکومت نے تنازعہ نمٹانے کے لیے ڈیم کا نام دیامیر بھاشا رکھ دیا، یہ 2016 میں مکمل ہونا تھا لیکن قوم کے دس سال اور اربوں روپے ضائع ہونے کے باوجود یہ نہ بن سکا ْ ان دس برس میں ڈیم کی لاگت 395ارب روپے سے 928 ارب روپے ہو گئی اور پراجیکٹ مشکل ہوگیا، یہ ڈیم اگر بن جائے تو پاکستان کو چار فائدے ہوں گے۔نانگا پربت کے گلیشیئرز سے ہر سال 50 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے ،یہ ڈیم ساڑھے چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر کے باقی پانی دریائے سندھ میں گرا دے گا۔دو ڈیم کے پانی سے ڈیرہ اسماعیل خان کا چھ لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہو گا ۔خوراک میں اضافہ ہو جائے گا۔تین ڈیم سے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی اور چوتھا فائدہ ہمارے ملک میں ہر سال سیلاب وسیع پیمانے پر تباہی مچاتے ہیں ڈیم کی وجہ سے اس تباہی میں بھی کمی آجائے گی۔یہ ڈیم انجینئرنگ کے نقطہ نظر سے بھی بہت اہم ہے یہ 270 میٹر بلند ہو گا اور یہ 110 مربع کلومیٹر پر محیط ہوگا یوں یہ دنیا کا بلند ترین آرسی سی ڈیم ہو گا ۔یہ تربیلا ڈیم سے 315 میٹر اوپر گلگت سے 165 کلومیٹر نیچے اور چلاس سے 40 کلومیٹر دور ہوگا۔ یہ پانچ سو کلو میٹر کے دائرے میں رہنے والے لوگوں کو روزگار اور سماجی فائدے پہنچائے گا ۔ہم اب منڈا ڈیم(مہمند ڈیم)کی طرف آتے ہیں یہ ڈیم مہمند ایجنسی میں دریائے سوات پر تعمیر ہونا تھا۔ فیزیبلٹی بیس سال پہلے تیار ہوئی لیکن یہ بھی آج تک نہیں بن سکا۔ دریائے سوات میں ہر سال سیلاب آتا ہے، یہ سیلاب پاکستان میں تباہی مچا دیتا ہے آپ کو2010 کا سیلاب یاد ہوگا اس سیلاب نے سوات چار سدہ اور نوشہرہ میں تباہی مچا دی تھی۔ماہرین کا خیال ہے اگر یہ ڈیم بن گیا ہوتا تو یہ تمام علاقے بربادی سے بچ جاتے ۔منڈا ڈیم بھی آٹھ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا، 17 ہزار ایکڑ زمین سیراب کرے گا ،وسیع علاقے کو سیلاب سے بچائے گا اور یہ بھی علاقے کو روزگار اور خوش حالی دے گا۔ ڈیم مہمند ایجنسی کی تحصیل پڑانگ غار میں تعمیر ہوگا ۔یہاں 2010 تک ایک بڑا ہیڈورکس ہوتا تھا ہیڈ ورکس سے نہریں نکل کر چارسدہ مردان اور شبقدر کو سیراب کرتی تھیں لیکن 2010 کے سیلاب نے یہ ہیڈورکس بھی اڑا دیا یوں پورا علاقہ بنجر ہو گیا ۔منڈا ڈیم کی تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت کو ہر سال کئی ارب روپے نقصان ہوتا ہے۔پاکستان اس وقت پانی کی شدید قلت کا شکار ہے ،قیام پاکستان کے وقت ہمارے ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی ہوتا تھا یہ اب ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے، یہ 2025 میں 8 سو کیوبک میٹر ہو جائے گا،ہم 1990 میں ان ملکوں میں شامل ہوگئے تھے جن میں آبادی زیادہ اور پانی کم تھا، ہم نے وارننگ کو سیریس نہ لیا چنانچہ ہم 2005 میں پانی کی قلت کے شکار ملکوں میں آ گئے ہم اس وقت بھی سیریس نہ ہوئے ہم اب قلت آب کے شکار پہلے تین ملکوں میں شامل ہو چکے ہیں لیکن ہم آج بھی سیریس نہیں ہیں۔یہ حالات اگر جاری رہے تو ہم 2025 میں قحط کے دروازے پر کھڑے ہوجائیں گے ۔