خارجہ پالیسی: دنیاداری یا عشق کی مجبوری؟
عملی طور پر, خارجہ پالیسی کبھی ہمارے جذبات کو تسکین نہیں دیتی اور نہ ہماری جذباتی امیدوں یا غصے کیلئے نتیجہ خیز ہی ہوتی ہے، کیونکہ یہ زمین پر زمینی حقائق کے گرد گھومتی ہے! گویا خارجہ پالیسی میں نفرت اور رومانس کے تقاضوں کا طواف کوئی معنی نہیں رکھتا۔ خارجہ پالیسی محسن بھوپالی کی ایک غزل کا خوبصورت مطلع نہیں کہ لوگوں کے سمجھنے اور سمجھانے کو یکسر نظر انداز کیا جاسکے کہ:
چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری
خارجی شاہراہ پر قدم قدم پر نظرثانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ پس جان کی امان پاتے ہوئے عرض یہ ہے کہ, خان کی خارجہ پالیسی کو سکہ بند ماہرین اور جہاندیدہ اکابرین کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا انحصار سوشل میڈیا کے فیصلوں ، نعروں اور چاہتوں پر مبنی جملوں پر ممکن ہی نہیں۔ گلوبل ولج بھی گاو¿ں ہی کی طرح کی ایک طرز زندگی ہے جس میں چوہدری, چوہدری ہے اور کمی, کمی! بڑا کنبہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور بڑی برادری کے ووٹوں کی اپنی ایک اہمیت, پھر نمبردار, نمبردار ہی ہے, ملا اور اس کا مسلکی گروہ اپنی جگہ اور مسٹر اپنی جگہ,کن ٹٹا بھی وہاں اور شریف بھی وہاں آباد , اسی طرح نودولتیوں کا اپنا مقام اور سٹائل. یہی سب شہر میں بھی ہے بس کردار تھوڑے اوپر نیچے کرلیجئے . بالکل ایسا ہی کچھ عالمی برادری میں بھی ہے۔
عالمی سطح ہو یا قومی سطح، ڈپلومیسی ہو یا ڈیموکریسی ہر جگہ پر کارڈ کھیلے جاتے ہیں۔ جگ جانتا ہے کہ، بھارت اور امریکہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا کارڈ کھیلتے ہیں۔ پاکستان بھارت کے خلاف کشمیر کارڈ استعمال کرتا ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کو ہر جگہ بطور کارڈ کھیلتا ہے۔ اسی طرح امریکہ بعض جگہوں پر درآمدات اور کچھ جگہوں پر برآمدات کا کارڈ بھی کھیلتا ہے۔ ویسے تو ایک امریکی فلاسفر, معروف قانون دان اور سابق سرکاری اہلکار ولیم رمزے کلارک نے کہا تھا کہ:
"دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ بڑا دہشت گرد بن کر ابھرا"لیکن ان سب چیزوں کے باوجود عالمی برادری میں کہیں نظر انداز کرکے اور کہیں مدنظر رکھ کر چلنا پڑتا ہے. چند دن قبل امریکی وزرائے دفاع اور خارجہ بھارتی ہم منصبوں سے مثبت مذاکرات انجوائے کررہے تھے کہ امریکہ میں امریکی صدر نے کہہ دیا کہ ہم بھارت اور چین پر ٹیکس بڑھائیں گے, ہمیں اپنا کاروبار عزیز ہے ۔بھارت اور چین کا نہیں. تھامس جیفرسن کا کہنا تھا کہ " سبھی اقوام ہی کے ساتھ کامرس, امن اور ایمانداری کا مطلب ہے کہ آپ کا اتحادی معاملہ صفر پر کھڑا ہے."مطلب یہ کہ خارجہ پالیسیاں بھی سیاست کاریاں ہی ٹھہریں۔ خارجی میدانوں میں, چین کے کھیل کا انداز منفرد ہے وہ پتے چھپا کر اور دبا کر کھیلتا ہے، چین سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے جو ویٹو پاور رکھتا ہے ، اس پاور کا استعمال چین نے ہمیشہ سمجھداری سے کیا ہے. چین سمجھتا ہے کہ دوسرے ممالک کے اوپر اپنے خیالات اور پالیسیاں مسلط کرنے سے نقصانات ہوتے ہیں۔ چین باور کرارہا ہے کہ وہ کسی پر سبقت نہیں چاہتا. ایک قابل غور چینی محاورہ ہے کہ " ایک اچھے پڑوسی کو سونے کی بوری کے بدلے میں بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا " چین اپنے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کو اہمیت دیتا ہے , غور فرمائیے کہ, اگرچہ بھارت چین سے تھوڑا سا خائف تھا ممکن ہے ابھی بھی ہو مگر چین نے جس طرح سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس کو ایسے پراجیکٹس پیش کئیے جن سے فائدہ بھارت کو پہنچے گا نہ کہ چین کو۔ مقصد یہ کہ اس طرح عالمی برادری میں یہ ایسے خیالات پیدا ہوں گے کہ ہم ایک دوسرے کےساتھ تعاون کر کے زیادہ ترقی کر سکتے ہیں۔ پس حقیقت ہے کہ چینی خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں ہی سے خطے میں امن کے امکانات ہیں کیونکہ چین تمام معاملات اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا ہے ، یوکرائن یا کوریائی جزیرے کے مسائل دیکھ لیں ،چین تصادم سے بچنے کی راہ دکھاتا ہے اسی وجہ سے چین اقوام عالم کا شائستہ چوہدری بن کر ابھرا ہے نودولتیا نہیں۔پچھلے 4 سالوں میں چین نے عالمی مسائل کے لئے گفت و شنید کو ترجیح دی ہے۔
ایک طرف اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس نے اپنے نظریاتی کارڈ کو ہمیشہ کھیل کے سب اصولوں کو سبوتاژ کرکے کھیلا ہے اور ریفری علی الاعلان اس کا ساتھ دیتا ہے۔ یہاں تک کہ, جرمنی جیسا وضعدار ملک بھی ایک وقت میں دوباتیں کر جاتا ہے. جب اسرائیل نے فلسطین سے بدمعاشی کی ,تو جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے مقبوضہ فلسطین کے دورے سے قبل کہا کہ ایک یہودی ملک کے مقابلے میں احساس ذمہ داری اور اس کی سلامتی کے تحفظ کو مقدم جاننا ہماری خارجہ پالیسی کی اہم ترجیح ہے۔ لیکن ماس نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے دن( یوم نکبت) یعنی 14 مئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ دن ہمارے لیے جرمنی میں بہت اہم ہے اس لیے کہ ہماری اسرائیل سے دوستی ان کے بزرگوں کے ساتھ دوستی کی وجہ سے ہے۔ 2017 کی ابتدا سے اسرائیل جرمنی کے درمیان روابط میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی تاہم جرمن وزیر خارجہ نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرنے کا ارادہ کر کے ان روابط میں دوبارہ گرم جوشی پیدا کرنے کی کوشش شروع کی۔ گویا لوگ خارجی معاملات میں لاٹھی بچا لے چلتے ہیں. امریکہ نے اسرائیل کی صورت میں ایک " بغل بچہ بدمعاش " پال رکھا ہے. جس کے متعلق سارا زمانہ آشنا ہے کہ اسرائیلی بدمعاشی, کشمیر میں بھارتی مظالم, افغانستان میں را اور امریکی کارستانیاں پورے عالم کا توازن خراب کئے ہوئے ہیں ان سب چیزوں سے پاکستان کا بالواسطہ اور بلاواسطہ تعلق ہے لہذا ہمیں چین، روس اور یورپ کو اعتماد میں لے کر چلنا ہوگا اور اس کے لئے خارجی مہارت کی ضرورت ہے. ایک تھنک ٹینک تشکیل دینا ہوگا یہی نہیں کہ ہر چیز ہی میں عمران خان ماہر ہیں اور بس ان کو ہوا دیتے رہیں یا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے پھریں. تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے کہ خان عقل کل ہیں اور وہ بہت اچھے حکمران ہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی قطعی نہیں کہ, مقابل ممالک میں ایسے لوگ عنان حکومت سنبھالے ہوئے ہیں،جو سوشل میڈیا ,اندھی چاہتوں اور غیر متوازن جذبات کے مالک ہیں. زمینی حقائق اور دیگر ملکوں کی حیثیت, خارجی پروٹوکول, سفارتی آداب، سوشل سٹیٹس کو دیکھ بھانپ کر چلنا ہوگا. ہر جگہ باو¿نسر نہیں چلتا اس پر کوئی بیک فٹ پر چھکا بھی مار سکتا ہے،کہیں سپنر کی گگلی درکار ہوتی ہے اور کبھی فاسٹ باو¿لر کا یارکر ! کبھی میچ باو¿لر نہیں اوپنر بناتے ہیں اور کبھی نائٹ واچ مین, کبھی کپتان کو بے بسی سے ٹیم بچاتی ہے. موسم, حالات, پچ کے سنگ سنگ گراو¿نڈ اور کراو¿ڈ کو بھی دیکھنا پڑتا ہے! ۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے 2018 کی خارجہ پالیسی میں، سرفہرست پروگراموں کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے روس کے سیاسی ماہر "ولادیمیر زاخاووف" قانون کاٹسا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ اپنے اقدامات کے ذریعے در حقیقت یورپی یونین کو کمزور کرنا اور یورپی ملکوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ روس کے خلاف امریکہ کی نئی پابندیاں ممکن ہے امریکہ کی تیل اور گیس کی کمپنیوں کو سو ارب ڈالر کا نقصان پہنچائیں۔(جاری )
اسی طر ح روسی ماہر "ولادیس لاواینک" نے پیشنگوئی کی ہے کہ روس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے سے ممکن ہے امریکہ کی تیل اور گیس کمپنیوں اور اس ملک کی دیگر کمپنیوں کو خاصا نقصان پہنچے۔ یہ ہے وہ روس جو اپنی جگہ عالمی برداری میں تحفظات اور خدشات رکھتا ہے۔ گویا ماسکو نے ایشیاءکے مشرقی اور جنوبی علاقوں کو اپنے مد نظر قرار دینے کی پالیسی اپنائی ہے اور ان ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیا ہے اور لاطینی امریکہ کی جانب بھی اپنی توجہ مبذول کی ہے کہ, اس علاقے کے بھی بعض ملکوں کے ساتھ تعلقات بڑھائیں! روس کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کی کونسل کے سربراہ ڈورلو کیاف نے کہا کہ فرسٹ امریکہ، کا نعرہ صرف نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک طرزعمل ہے جو نہ صرف روس کے خلاف بلکہ واشنگٹن کے اتحادیوں اور شرکائ کے سلسلے میں استعمال کیا جاتا ہے اور یہ رویہ مشترکہ مفادات کے اصول کی نفی کرتا ہے- اسی دائرے میں امریکہ اپنے مد نظر پالیسیاں دیگر ملکوں پر مسلط کرنے کے درپے ہے اور ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ کی یکطرفہ پالیسیاں، سیاسی محرکات کے ساتھ یکطرفہ پابندیاں عائد کرنا رہی ہیں کہ جس کا نمونہ کاٹسا قانون ہے۔
۔ ایسے ہی بھنوروں اور گردابوں میں پھنسے ایرانی سربراہ آیت اللہ خامنہ ای نے کچھ عرصہ قبل بیرونی ممالک میں تعینات سفیروں، ناظم الاموروں اور وزارت خارجہ کے حکام و عہدیداروں سے ملاقات میں حقیقی معنی میں قومی مفادات کے تحفظ کو خارجہ پالیسی کا اصلی ہدف قرار د یتے اور اس کے اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ : صحیح انقلابی جذبات اوربامقصد و زیرکارانہ سفارتکاری کے ذریعے خارجہ تعلقات کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور نظام کے عناصر قدرت کو سیاسی و سفارتی کامیابیوں کے لئے پشت پناہ بنایا جا سکتا ہے۔سفارتکاری ایک مضبوط ذریعہ ہے کہ جس نے حساس لمحات اور مواقع پر ملت ایران کی حقانیت کے دفاع میں اپنی افادیت کو ثابت کیا ہے-تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ مضبوط سفارتکاری ایک اہم ستون اور پرپیچ و خم عالمی معاملات میں دشمن کی سافٹ وار کا مقابلہ کرنے میں ایک اہم محاذ ہے-بہرحال جب سیاسی و سماجی و مذہبی و خارجی سوالات جنم لیتے ہیں تو وزیروں اور مشیروں کا فرض بنتا ہے وہ سیخ پا ہوئے بغیر موثر جواب دیں. پاکستان کی مشکل خارجہ پالیسی میں عمران خان ابھی کوئی مستحکم اسٹینڈنگ کے قریب تر بھی نہیں, بہت کچھ سیکھنا اور سمجھنا ابھی باقی ہے. کیونکہ افغانستان کے ساتھ کشیدگی، پھر امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات جبکہ بھارت کے ساتھ سفارتی مراسم عدم استحکام کا شکار۔ ایک لحاظ سے پاکستان عالمی سطح پر تنہا کھڑا ہے۔ اور یہاں ہم نے تاثر دینے کی بچگانہ کوشش کی ہے کہ, پچھلے دنوں جب امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو آیا ہے تو عمران خان نے اسے رام کرکے بھارتی دورہ پر آگے بھیجا ہے. ملاقات کیسی رہی اس پر بھارت جاکر مائیک پومپیو نے تاثر کچھ دیا اور پاکستان میں ہمارا تاثر کچھ تھا. مجموعی طور پر امریکی و بھارتی و پاکستانی میڈیا میں تاثر اور تاثرات میں زمین آسمان کا فرق تھا ,جو نہیں ہونا چاہیے. خارجی معاملات کو گلی محلے کے کارکنان اور سوشل میڈیا کی زبان میں نہیں ٹرخایا جاسکتا. شروع ہی میں سفارتی سطح پر ٹیلی فون کالوں اور بعد از مذاکرات و ملاقات بریفنگز نے بدمزگی پیدا کردی جو آئندہ نہ ہو تو یہ سفارتی و خارجی بالغ نظری ہوگی. سفارت کاروں اور خارجی ماہرین چشم بینا کو فروغ دیں. افغانی مسائل کا حل پاکستان ہی کے پاس ہے افغان قیادت عمران خان پر اعتماد کرے جس طرح افغان عوام کرتے ہیں. یہ چپکے چپکے امریکی وزیرِ دفاع کا غیر اعلانیہ افغانستان جانا بے سود ہے جب تک پاکستان کو شامل نہ کیا جائے. خطے میں امن کیلئے ضروری ہے کہ تمام افغان سٹیک ہولڈر, پاکستان, چین اور روس اکٹھے بیٹھیں. اور صدر ٹرمپ مستقل مزاجی سے کام لیں!!
المختصر, خارجہ پالیسی کبھی ہمارے جذبات کو تسکین نہیں دیتی اور نہ ہماری جذباتی امیدوں یا غصے کیلئے نتیجہ ہی خیز ہوتی ہے، کیونکہ یہ زمین پر زمینی حقائق کے گرد گھومتی ہے!