ہمیں پرائی کیا پڑی؟
”تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو“ کی عملی تصویر جی ایچ کیو کی پریڈ گراﺅنڈ میں اس وقت دکھائی دی جب وزیر اعظم عمران خان نے عساکر پاکستان کی موجودگی میں اعلان کیا کہ پاکستان کبھی کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گا۔ انہوں نے سول اور ملٹری قیادت کے ایک پیج پر نہ ہونے کا باب بھی ہمیشہ کے لئے بند کر دیا وزیر اعظم نے واضح کر دیا سول ملٹری تعلقات کوئی مسئلہ نہیں ۔ پاکستان کو ملکر آگے لے جانا ہمارا مشترکہ مقصد ہے۔ قوم نے دیکھ لیا کہ وطن اور عوام سے مخلص اور بے لوث لیڈر کی فوج کس طرح عزت افزائی اور قدر کرتی ہے چند روز میں عمران خان کا جی ایچ کیو کا دوسرا دورہ تھا۔ پہلی بار جی ایچ کیو کے فوجی جلسے میں کسی وزیراعظم کو خطاب کا موقع دیا گیا۔ یہ بھی پہلا موقع تھا جب وزیر اعظم کو کور کمانڈرز کانفرنس والے کمرے میں آرمی چیف کی کرسی پر بٹھا کر انہیں چھ گھنٹے بریفنگ دی گئی۔ اندرون ملک مخالف قوتوں کو ہی نہیں دنیا بھر کو پیغام جا چکا ہے کہ منتخب حکومت کی پشت پر فوج کھڑی ہے اور اسے ہر قیمت پر کامیابی سے ہمکنار کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ جی ایچ کیو میں وزیر اعظم کی توقیر شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے بچشم خود دیکھ لی۔ احتساب کا جھاڑو پھرنا شروع ہو چکا ہے۔ حقیقی معاشی تصویر قوم کے سامنے لائی جا رہی ہے ”لالچ بُری بلا ہے“ کو نہ سمجھنے والے مردِ حُرکو ہر روز جی آئی ٹی کے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ بجٹ نئی شکل میں جلد سامنے آ جائے گا۔ محکموں اور وزارتوں کی بھی ڈاﺅن سائزنگ ہونے جا رہی ہے درجنوں محکموں کے سروں پر سوار 56 کمپنیوں کو بھی معدوم کر دیا جائے گا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے محکمہ صحت کے سلائس جوڑ دئیے ہیں۔ دانش سکول آشیانہ ہاﺅسنگ لیپ ٹاپ وہ غبارے تھے جو پھٹ چکے ہیں۔ غبارے لمحاتی اور نمائشی ہوتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پومپیو پر پاکستان نے واضح کر دیا کہ اپنے مفادات مقدم رکھیں گے یعنی اب ڈومور اور جی حضوری نہیں ہو گی مشترکہ وعدوں پر دوطرفہ نتائج دینے کا وقت آ گیا ہے۔ امریکہ نے ڈومور کا مطالبہ نہیں کیا لیکن دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ ضرور دہرایا جلد پتہ چل جائے گا پاک امریکہ تعلقات میں تعطل کا خاتمہ ہوا ہے یا نہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاﺅ کی وجہ باہمی اعتماد کا فقدان ہے تاہم نئی حکومت امریکہ کے ساتھ اعتماد پر مبنی تعلقات کے لئے پرعزم ہے۔
حکومت کے روزاول سے سادگی کفایت شعاری کا چرچا ہے۔ اڈیالہ کے مکیں سابق وزیر اعظم نے صرف ایک سال میں 21 ارب روپے کے صوابدیدی فنڈ استعمال کئے تھے۔ اب یہ فنڈز زمیں بوس ہو چکے ہیں۔ ترقیاتی سکیموں کے نام پر ارکان قومی اسمبلی پرتین ارب نچھاورکئے گئے۔ ترقی یہ ہے کہ کسی سرکاری سکول ا ور کالج میں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ وزیر اعظم کے بیرونی دوروں کے لئے سالانہ دو ارب کی رقم مختص کی جاتی رہی۔ وزیراعظم آفس پر سالانہ 916 ملین روپے خرچ کئے گئے اسی آفس میں احتساب سیل قائم ہوا ہے۔ 100 بڑے مگرمچھوں کی فہرست تیار ہے۔ جعلی بینک اکاﺅنٹس کیس میں سپریم کورٹ جے آئی ٹی بنانے کاحکم دے چکی ہے یہ ملکی تاریخ کی دوسری جے آئی ٹی ہو گی۔ پہلی جے آئی ٹی نے نواز شریف کو اڈیالہ کی شہریت دلوائی ۔
شریف دورمیں کابینہ ڈویژن کا خرچ پانچ ارب سالانہ تھا۔ لاہور اورنج ٹرین کی لاگت میں 80 ارب کا اضافہ ہوا تو پشاور ریپڈ بس کی لاگت 49 ارب سے بڑھا کر 68 ارب کی گئی۔ نیب نے پرویز خٹک کے خلاف بھی انکوائری کی منظوری دے دی ہے۔ پنجاب میں قبضہ گروپوں، تجاوزات کے خلاف آپرپشن کا فیصلہ ہوا ہے تو وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کی خبر لینا بھی ضروری ہے جس طرح وزیر اعظم معائنہ کمیشن کی خبرلی گئی ہے۔ وزیر خارجہ کاکہنا ہے امریکہ سے نیا رشتہ قائم ہو گا نئے پاکستان کے ساتھ رشتے بھی نئے استوار ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی نے یہ نہیں بتایا کہ پہلے رشتے میں طلاق ہوئی یا خلع لیا گیا اور اب پرانی دلہن سے تجدید نکاح کے لئے حلالہ تو ضروری ہوتا ہے۔ عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی پرانی دلہن نے نخرے دکھانے شروع کر دئیے۔
دوستی اور محبت میں جیب خرچ نہیں روکا جاتا۔ واشنگٹن سے تعلقات تقریباً معطل ہیں۔ امریکی دلہن میکے آ کر بیٹھ گئی ہے ہم کہتے ہیں امداد نہیں ہمارا بقیہ کولیشن فنڈ روکا گیا ہے۔ شاہ محمود امریکی وزیر خارجہ کو تصویر کا دوسرا رُخ دکھائیں گے لیکن اس کے بعد وہی ہو گا آئینہ ان کو دکھایاتو بُرا مان گئے۔
پچھلی حکومت کے امریکہ سے کسی لیول پر روابط نہیںتھے۔ حسین حقانی جیسے میرجعفر نے اپنے ہی ملک کی کمر میں کیل ٹھونکی جس نے اسے سفارت کا اعلیٰ منصب عطا کیا گاڑی پر پرچم لہرایا اسی نے تھالی میں سوراخ کر دیا ترک صدر بھی امریکہ کو خوب سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک امریکہ کارویہ جنگلی بھیڑیے جیسا ہے اس کی جتنی جی حضوری کی جائے اس کا جی نہیں بھرتا۔ پلیٹ خالی ہو تو اسے بھرنے کا مطالبہ کرتا ہے افغانستان اور بھارت اس کے ہم نوا ہیں۔ پاکستان اورافغانستان کے درمیان کشیدگی سے دوطرفہ تجارت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ مذاق اڑانے والوں نے دیکھ لیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملک بھر میں ”10 بلین ٹری“ مہم کا آغاز کر دیا ہے نادان اس پر بھی کہیں گے کہ 10 بلین پودے راتوں رات سروقد کیوں نہیں بن گئے۔ اسی طرح گھر بننا بھی شروع ہوں گے اور نوکریاں ملنی بھی۔ درخت نہ لگائے تو ملک ریگستان بن جائے گا۔ ہر محلے اور ہر گلی میں درخت لگانا ضروری ہے۔ آصف زرداری کا یہ نقطہ نظر بحث طلب ہے کہ سیاستدانوں پر کوئی مقدمہ غیر سیاسی نہیں ہوتا اس ضمن میں سب سے اہم بات سیاست دان کا خطاکارانسان ہونا ہے۔ سیاست دان فرشتے نہیں ہوتے۔ کیاسیاست دان صغیرہ کبیرہ گناہوں سے مبرا ہیں کیا ان میں خواہش نفس نہیں ہوتی۔
ذوالفقار علی بھٹو مقدمہ قتل میں سزائے موت کے حقدار ٹھہرے تھے۔ نواز شریف منی لانڈرنگ کیس میں اڈیالہ کے مکیں بنائے گئے۔ خود زرداری صاحب ایک عشرہ سے زیادہ لانڈھی جیل میں سکونت پذیر رہے۔ سیاسی ا ور غیر سیاسی مقدموںمیں فرق صاف دکھائی دیتا ہے۔ معاشرے میں اندھیر مچا ہوا ہے لیکن اتنا اندھیر نہیں کہ کامل بے گناہی پر تین باروزیراعظم رہنے والے مقبول رہنما کو خواہ مخواہ بند کر دیا جائے۔ الطاف حسین جرائم کا سرپرست اعلیٰ نہ ہوتا تو بھگوڑا کیوں ٹھہرتا۔ مشرف کا دامن بے داغ تھا تو وہ جان چھڑا کرکیوں بھاگا۔ اسحاق ڈار سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا تھاتو اسے لندن میں چھپنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ سب سیاستدان نہیں تو اور کیا ہیں۔ شرجیل میمن نے خود کو دبئی میں کیوں چھپائے رکھا۔ نیب اور ایف آئی اے سو فیصد غیر سیاسی جرائم کی بیخ کنی کے لئے قائم ادارے ہیں وہ سیاسی زبان درازیوں الزام تراشیوں پر کسی کو گرفت میں نہیں لیتے۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کے بارے اپنی خارجہ پالیسی ایک جملے میں کہہ ڈالی ہے کہ امریکہ سے لڑ نہیں سکتے لیکن غلط بات بھی نہیں مانیں گے یہ بات خوش آئند ہے کہ ایران نے کشمیر کاز کے لئے پاکستان کی ہم نوائی کرتے ہوئے کشمیریوںکے حق خودارادیت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان نے اپنے اس عزم کو دہرایا ہے کہ چاہے حکومت چھوڑنی پڑے احتساب سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے بے صبری کا مظاہرہ کرنے والوں سے کہا ہے حکومت کو 3 ماہ دیں پھرتنقید کریں آنے والے دنوں میں ہوش اڑا دینے والے انکشافات ہوں گے۔
حکومت پر تنقید کے لئے تین ماہ میڈیا کے ناقدین کے لئے کتنے صبر آزما ہوں گے تنقید کے بغیر تو بہت سوں کی روٹی ہضم نہیں ہوتی بلکہ روٹی نہیں چلتی اس لئے کہ تنقید ہی ان کا پیشہ ہے یہی مدت فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے بھی جمہوریت کی ہانڈی الٹانے کے بعد 5 جولائی 1977کی رات عوام کو دی تھی کہ وہ 90دن میں آزادانہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کے بعد غاصبانہ اقتدار سے دست کش ہو جائیں گے لیکن ان کی مدت 17اگست 1988کو اپنے خالق حقیقی کے بلانے پر پوری ہوئی۔
وزیرخزانہ اسد عمر کے حق میں یہی بہتر ہے پارلیمنٹ کو سپریم جانیں اور سچ کہتے چلے جائیں۔ پاکستان کو نو ارب ڈالر کی ڈرپ کی فوری ضرورت ہے گردشی قرضے 1200ارب تک پہنچ گئے ہیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی مسلسل تو نہیں ہوگی گرے لسٹ کی تلوار 15ماہ کے لئے سر سے ہٹالی گئی ہے یہ مہلت بھی نئی حکومت کے لئے رعایت ہے 27خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ہنڈی کاروبا ر، منی لانڈرنگ ، کرپشن کالعدم تنظیموں کے خلاف اقدامات .... فنانسنگ کے خلاف اقدامات بڑا چیلنج ہیں اسد عمر کے نزدیک کوئی وجہ نہیں ہم ستمبر 2019تک اے ایف ٹی ایف کی چیزیں پوری نہیں کر لیتے پاکستان نے ایران کو اپنی غیرمشروط دوستی کا یقین دلایا ہے کہ جوہری معاہدے کے معاملے پر اس کے ساتھ ہے ۔
پاکستان کو انتہا پسندی کے مسئلے کا حل نکالنا ہوں دہشت گردی معدوم نہیں ہوئی بارش کی طرح ہے کبھی بوندا باندی کبھی موسلادھار اور کھبی دعائے بارش کی ضرورت پیش آ جاتی ہے یعنی طویل وقفہ۔ چین اور امریکہ دونوں چوہدری ہیں دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے درپے ہیں ہم دونوں چوہدریوں کے جی حضوروں میں شامل ہیں نہ آئی ایم ایف نہ سی پیک کے بغیر ہماری دال گل سکتی ہے۔ اتفاق میں برکت ہے لیکن اپوزیشن کے تقسیم ہونے سے برکت اٹھالی گئی۔ مولانا فضل الرحمن اور اعتزاز احسن کے ہاتھ ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہ آیا اورڈاکٹر عارف علوی صدر منتخب ہوگئے اتفاق کی بنیادی شرط دلوں کی صفائی ہے دل میں رنجش ہو تو حقیقی خونی رشتے بھی اجنبی دکھائی دیتے ہیں صدارتی الیکشن نے پارٹی پوزیشن واضح کر دی ہے تحریک انصاف پہلے ن لیگ دوسرے اور پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر ہے نئے پاکستان کا آغاز ہو چکا ہے نندی پور ریفرنس دائر ہونے پر وزیراعظم کے مشیر بابراعوان مستعفی ہو چکے ہیں۔ عارف علوی صدر بن کر ایوان صدر میں خود کو مقید رکھنے کی بجائے حرکت وعمل میں رہیں گے صرف رسمی فرائض ادا نہیں کریں گے ان کا زیادہ فوکس کراچی پر ہوگا وہاں پانی کا مسئلہ حل کریں گے حکومت کے بہترین مشیر ثابت ہوں گے وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ بلاتفریق تمام اراکین اسمبلی کو وزیراعظم ہاﺅس باری باری مدعو کرکے ان سے ان کے انتخابی حلقوں کے بارے میں مشاورت کریں ایسا کرنے سے اچھا پیغام جائے گا اپوزیشن بھی اسی ملک کا حصہ ہے اس ملک کے ترقیاتی پروگرام اور وسائل پر اس کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا حکمران جماعت کے لوگوں کا۔ ایوان صدر پارلیمنٹ اور تین صوبوں میں ایک ہی جماعت کی حکومت، پاکستان میں ایسی بڑی تبدیلی ہے جس کی ماضی میں مثال موجود نہیں عارف علوی فعال ، پرعزم اور منفرد صدر ثابت ہوں گے ان کا کہنا ہے خاموش اور غیر متحرک صدر نہیں بنوں گا۔ ان کی نظر میں ہر آدمی کی دہلیز تک انصاف بیمار کا علاج ، بیروزگاروں کو روزی ملنی چاہیے ۔صدارتی الیکشن نے مذہبی جماعتوں کے سیاسی کردار کی بھی قلعی کھول دی ہے۔ جماعت اسلامی انتخابی سیاست سے آﺅٹ ہو رہی ہے مولانا فضل الرحمن کی سیاست بھی ناکامی سے دو چار ہوئی ہے حافظ سعید اور علامہ خادم حسین رضوی کا سیاست میں کردار معدوم ہو چکا ہے۔ طاہر القادری کی سیاست سے مایوسی اور عدم دلچسپی صاف دکھائی دے رہی ہے۔بنیادی ایشوز وزیراعظم ہاﺅس کی گاڑیوں کی نیلامی نہیں سارے گورنر ہاﺅس ریسٹ ہاﺅس ایوان صدر وزیراعظم ہاﺅس کی نیلامی سے ملک ترقی یافتہ یا امریکہ اور چین کے مقابل آ جائے گا ۔سب سے بڑی فضول خرچیاں تو صدر اور گورنروں کے عہدے ہیں کیا انہیں ختم کر دینے سے کسی حدیث نبوی کی نفی ہوتی ہے ؟ انصاف اور میرٹ کے دعوﺅں کو بھی کٹہرے میں آنا ہوگا ۔ ناقدین ہی نہیں عوام کی نظریں عمران خان کی جیت کے بعد 26جولائی اور بعدازاں بطور وزیراعظم 19اگست کے خطاب پرمرکوز ہیں ۔ہمارا بڑا مسئلہ مالی عدم توازن ہے خرچے زیادہ آمدنی کم ، قرضے زیادہ قرضوں کی واپسی کم، بجلی کا استعمال زیادہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کم جرائم زیادہ مجرموں کی پکڑ دھکڑ کم باتیں زیادہ عمل کم میڈیا جس کے پیچھے پڑ جائے اس کے کپڑے اتار کردیتا ہے شیخ رشید سے زیادہ فیاض چوہان میڈیا مارٹر توپوں کے سامنے کھڑے ہیں ۔ نیا اور میرٹ والا پاکستان بن گیا تو عمران خان کی بلے بلے ہوگی ورنہ پھر بلے کے ہاتھ سے گیند نکل جائے گی۔ پہلی بار اقتصادی رابطہ کمیٹی نے غیر قانونی کنکشن 3ماہ میںختم کرنے اور بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے بل نہ دینے پر وزیراعظم ہاﺅس کی بجلی بھی منقطع ہوگی مسلسل 3بل ادا نہ کرنے والوں کے کنکشن منقطع ہوں گے ترسیلی کمپنیوں کا آڈٹ ہوگا ان کمپنیوں کا معمولی اہل کار بھی بجلی چوری میں سہولت کاری کا کردار ادا کرنے کے باعث چوڑا ہو کر پھرتا ہے اپوزیشن متحد نہ ہو تو اپوزیشن نہیں رہتی صدارتی الیکشن نے اس کی ساری قلعی کھول دی پیپلزپارٹی نے ن لیگ کی حمایت نہ کرکے بالواسطہ پی ٹی آئی کا ساتھ دیا گویا ثابت یہ ہوا کہ اپوزیشن صرف ن لیگ کا نام ہے پیپلزپارٹی فرینڈلی اپوزیشن ہے جیسے وہ ن لیگ کے لئے ہوا کرتی تھی اسے اپنی سیاسی بقا کے لئے ایسا کرنا پڑا رہا ہے ۔