دیکھ میرے کشمیر

کشمیر کا ایک المیہ یہ ہے کہ کشمیر کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں یا یوں کہہ لیں وہ نہیں جانتے جو جاننا چاہئے۔ کشمیر میں دہائیوں سے جاری بھارتی مظالم ، حق خودارادیت کیلئے دی جانیوالی قربانیوں کی داستانیں یہ سب کچھ وادی کشمیرکی خوبصورتی کو گہنا سا گیا ہے ،کشمیر جنت نظیر ہے لیکن جب ہم نے جنت ہی نہیں دیکھی تو جنت نظیر کا تصور کیسا ،پھر اس حسن بے مثال کو دیکھنا اور جاننا تو ضروری ہوا ناں، کہ دیکھیں جنت ہوتی کیسی ہے، جنت کیلئے مرنا ضروری ہے لیکن دنیا میں جنت دیکھنی ہے تو کشمیر چلئے۔کہتے ہیں اگر آپ زندگی میں خوش ہیں تو اس خوشی کا لطف دو بالا کرنے کیلئے سفر کریں، اگر زندگی میں کچھ برا چل رہا ہے تو اس پریشانی کا بوجھ کم کرنے کیلئے سفر کریں اور اگر کچھ نہیں ہورہا تو بھی سفر کریں تاکہ زندگی میں کوئی تو ہلچل ہو۔ لیکن یہاں سفر کے ذکر کے ساتھ ہی معاشی مجبوریوں کا ذکر آجاتا ہے سیر و تفریخ کیلئے سفر کرنا تو کجا، ضرورت کے تحت لمبا سفر کرنا پڑجائے تو وہ بھی انگریزی والا سفر بن جاتا ہے۔لیکن جو لوگ سیر و سیاحت کا شوق رکھتے ہیں اور معاشی استطاعت نہیں رکھتے وہ سفرنامہ پڑھ لیں۔ یقین جانیں اچھا سفرنامہ آپکو گھر بیٹھے ان سبھی وادیوں کی سیر کرا ڈالے گا جن کو دیکھنا ہمیشہ سے آپکی خواہش رہی ہو۔ ویسے تو کشمیر پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن کم لگتا ہے۔ شاید اسلئے کہ جتنا اس سرزمین حسن وجمال کا جلوہ ہے اس کیلئے الفاظ کم پڑجاتے ہیں، تحریر نامکمل رہتی ہے۔ سب کچھ بتانے کے بعد بھی لگتا ہے بہت کچھ بتانے کو رہ گیا ہے ،گزشتہ دنوں وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ایک تقریب میں ایک کتاب اور اس کے مصنف سے تعارف ہوا۔ کشمیر کے دورے کی اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب کو مصنف نے “دیکھ میرا کشمیر” کا نام دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ کتاب کے لکھاری یعقوب نظامی پہلے بھی نصف درجن سے زائد دنیا کے مختلف ممالک کے سفر نامے تحریر کرچکے ہیں۔ لیکن اس کتاب کی تحریر میں مصنف کے جذبات امڈ رہے تھے۔ پھر معلوم ہوا کہ مصنف پیدائشی کشمیری ہیں لیکن بیرون ملک مقیم ہونے کی وجہ سے وطن کی دوری کا کرب بھی محسوس کرتے ہیں۔ اور یہی وطن کی مٹی کی انسیت اور اس سے دوری کا غم الفاظ میں جھلکتا ہے۔کشمیر کو سوئٹزر لینڈ جیسے خطوں سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ دنیا کے ان خوبصورت خطوں کو کشمیر سے تشبیہ دی جائے۔ ہوسکتا ہے لیکن اس کیلئے ہمیں اس کا حسن دنیا کو دکھانا ہوگا جو اب تک پوری طرح نہیں دکھایا جاسکا، مقبوضہ کشمیر میں تو جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے بھارت کی پابندیاں سیاحوں اور سیاحت کے آڑے آجاتی ہیں۔ آزاد کشمیر میں تو ایسا نہیں لیکن یہاں کی سیاحت کو بھی دنیا میں اسطرح اجاگر نہیں کیا گیا جو اس کا حق ہے اور جیسا ہونا چاہئے تھا۔ ٹیکنالوجی کی اس چوتھی جنریشن نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ بلاگ ، وی لاگ بن چکے ہیں۔ تحریر کی جگہ تصویر لیتی جارہی ہے۔ ذریعہ کوئی بھی ہو بلاگ لکھیں یا وی لاگ میں بولیں، تحریر سے بتائیں یا تصویر سے منظر کشی کریں۔ مقصد تو ایک ہی ہوتا ہے۔ کشمیریوں کی آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد تو دہائیوں سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔ اس مسئلے کو اجاگر کیا جاتا رہے گا لیکن کشمیریوں اور کشمیر سے وابستگی رکھنے والوں کو دنیا کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اس خطے میں آخر ایسا کیا ہے کہ بھارت جیسا ملک یہاں قابض رہنے کیلئے اربوں جھونک رہا ہے، کشمیریوں کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے اور جواب میں اپنے فوجی بھی مروا رہا ہے۔ دنیا کو بتانا ہوگا کہ :
دیکھ میرا کشمیر کتنا حسین ہے،دیکھ میرا کشمیر حقیقت میں جنت نظیر ہے،
دیکھ میرے کشمیر کے لوگ کتنے مہمان نواز اور محبت کرنیوالے ہیں،
دیکھ میرے کشمیر کے نوجوان بزرگ بچے مائیں بہنیں آزادی کیلئے کتنی اور کیسی کیسی قربانیاں دے رہی ہیں۔ یہ ضروری اس لئے بھی ہے کہ کل ہم اس دھرتی ماں کے سامنے شرمندہ نہ ہوں اور کہہ سکیں 
دیکھ میرے کشمیر میں نے کسی بھی حال میں تجھ سے رشتہ نہیں توڑا۔ 
دیکھ میرے کشمیر میں نے تجھے دشمن سے آزاد کرانے کیلئے اپنے بچوں بھائیوں کی جانیں، ماوں، بہنوں کی عصمتیں قربان کیں۔ دیکھ میرے کشمیر دشمن تجھے جلا رہا تھا لیکن میں نے تیرا حسن ماند نہیں پڑنے دیا۔ 
دیکھ میرے کشمیر میں نے اپنے قلم اور کیمرے سے تیرے حسن کی حقیقی تصویر کشی کی اور اس کا پرچار پوری دنیا میں کیا۔ 
دیکھ میرے کشمیر میں نے دنیا کو تیرا وہ رنگ و روپ بھی دکھایا جو وہ نہ دیکھ پارہے تھے۔ دیکھ میرے کشمیر میں نے تجھ سے محبت کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش تو کی۔

ای پیپر دی نیشن