پاک فوج عظمت کا نشان
پاکستان کی فوج پیشہ وارانہ فوج ہے اور اسے دنیا کی سب سے چوک و چوبند فوج ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاک فوج میں ہمیشہ ترقی و تبادلے کا عمل ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہوتا ہے اور عام اداروں کی طرح یہ نہیں ہوتا کہ کوئی اعلیٰ افسران پر اثر انداز ہو کر اپنی ترقی کروا لے یا کسی سے سفارش کروا کر تبادلہ کروا لے بلکہ یہ سب کچھ اس منظم فوج میں ایک طریقہ کار کے مطابق ہوتا ہے۔حال ہی میں پاک فوج میں اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کردیا گیا ہے۔ انکی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کم و بیش اڑھائی سال دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی کی کمان کی اور اس دوران بے بہا کامیابیاں حاصل کیں۔پشاور کا کور کمانڈر بننے کے بعد بھی یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاک فوج کی شان میں مزید اضافے کا باعث ہی بنیں گے اور اسی طرح دشمنوں کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے۔ جنرل فیض حمید اس وقت سینارٹی لسٹ میں بھی چوتھے نمبر پر موجود ہیں۔انکے دور میں ہی افغانستان میں امریکی فوج کو رخصت ہونا پڑا جس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی کا بھی اہم کردار ہے جسے دنیا مانتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے دورہ افغانستان پر بھی بھارت میں خوب واویلا مچایا گیا۔جنرل فیض حمید اس ادارے کو جس بلندیوں پر لے گئے ہیں اسے مزید کامیابیوں و کامرانیوں سے گزارنے کیلئے اب اس اہم ادارے کی کمان لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کے سپرد کی گئی ہے۔28 پنجاب رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا تعلق 77ویں لانگ کورس سے ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم مغربی سرحد، لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بلوچستان میں کمانڈ کر چکے ہیں۔ وہ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں انفنٹری بریگیڈ کی کمانڈ کر چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم آپریشن ضرب عضب کے دوران اس وقت کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی اور خیبرپی کے کے ضلع ہنگو میں انفنٹری بریگیڈ کی کمانڈ کر چکے ہیں۔ وہ ردالفساد کے دوران آئی جی ایف سی بلوچستان بھی رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم ڈی جی آئی ایس آئی بننے سے قبل کور کمانڈر کراچی تعینات تھے۔ان کا کیریئر اور تعیناتیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ ایک پیشہ وارانہ جنرل ہیں جو آئی ایس آئی کو اپنے پیش رو کے طریقہ کار پر ہی کاربند کر کے مزید بلندیوں پر لے جائیں گے۔ اسکے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید کور کمانڈر کراچی اور لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود صدر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی تعینات کئے گئے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد سعیداس سے قبل صدر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے عہدے پر تعینات تھے۔لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید تقریبا ًدو سال کا عرصہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر رہے اور اس دوران انہوں نے اس ادارے کو نئی جہت دی۔راقم الحروف کو بھی ان سے سیکھنے کا شرف حاصل ہوا اور این ڈی یو میں انکی نگرانی میں ہوئے دو ہفتوں کے کورس کے دوران اندازہ ہوا کے لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید کتنے محنتی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ این ڈی یو ایک یونیورسٹی اور تھنک ٹینک کے علاوہ مسلح افواج کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کا اہم ادارہ ہے۔
یہاں افسران کی صلاحیت اور استعداد کار بڑھانے کیلئے ورکشاپس، سمینارز اور خاص کورسز کا اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ یہاں صحافیوں کی تربیت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید کو کور کمانڈ رکراچی تعینات کیا گیا ہے تو یقینا وہاں بھی وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں گے کیونکہ وہ اس سے قبل جب میجر جنرل تھے تو ڈی جی رینجرز سندھ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔انکے علاوہ پاک فوج میں ہونے والے تقرر و تبادلوں پر اگر بات کریں تو لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کو کور کمانڈر گوجرانوالہ جبکہ کور کمانڈر گوجرانوالہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو کوراٹر ماسٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے۔میجر جنرل عاصم ملک کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر انہیں پاک فوج کا ایجوڈنٹ جنرل تعینات کر دیا گیا ہے۔یہ بڑا اہم عہدہ ہوتا ہے ا س عہدے پر آرمی میں مین پاور کے علاوہ نظم وضبط کی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور تمام سزاؤں کا تعین بھی کرتا ہے۔کوارٹر ماسٹر جنرل تعینات ہونیوالے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اس سے قبل کور کمانڈر گوجرانوالہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، وہ جنرل فیض سے پہلے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات ہونیوالے لیفٹیننٹ جنرل محمد عامریڈجوٹنٹ جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے، وہ جنرل آفیسر کمانڈنگ لاہور کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔یہ تمام تقرر و تبادلے معمول کی کارروائی ہیں۔
جنرل فیض حمید ہوں یا جنرل محمد سعید یہ تمام پاک فوج کی سخت ٹریننگ اور گرم و سرد ماحول کو برداشت کرتے ہوئے اعلی عہدوں تک پہنچے ہیں اور ملک و قوم کی بھاری ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے خندہ پیشانی سے اپنا کام کئے جا رہے ہیں۔یہ غازی اور پر اسرار بندے نہ تو ستائش کے طلب گار ہوتے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو سیاسی لوگوں کی طرح اپنی واہ واہ کرانے کی ضرور ت ہوتی ہے۔
‘ انکے عہدے اور ان کا کام ہی اس بات کی واہ واہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ پاک فوج کی بریک چھلنی سے گزر کر اعلیٰ عہدوں پر پہنچے ہیں تو یقینا سرمایہ ملت ہوں گے اور پاک فوج کی عظمت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرینگے۔