بھارت میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 30 ستمبر 2020 کو شہادت بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنا دیا جس میں تمام 32 ملزمان کو بے قصور قرار دے کر بری کر دیا۔ اس مقدمہ میں لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی سمیت 32 ملزمان پر مسلم کش فسادات بھڑکانے اور مسجد کو شہید کرنے کے سنگین مقدمات تھے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک سال قبل بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ بھی بھارتی عدالت نے ہندوؤں کے حق میں دے دیا تھا جبکہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شہادت بابری مسجد کیس میں 32 ملزمان کو سزا سنائے جائیگی۔ بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو شہید کیا گیا اور یہ مقدمہ 28 سال تک بھارتی عدالت میں زیر سماعت رہا۔ اس مقدمہ میں 351 گواہان نے اپنے بیان قلم بند کروائے اور سی بی آئی نے 600 کے لگ بھگ دستاویزاتی شہادتیں پیش کیں۔ بابری مسجد پانچ سو سال قبل مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے تعمیر کروائی جو کہ دسمبر 1992 تک مسلمانوں کی عبادت گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ جو کہ ایک حقیقی ثبوت تھا اور اس کے حق میں سی بی آئی نے 400 صفحات پر مشتمل دلائل عدالت کے روبرو جمع کروائے۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کا تمام ملزمان کی مقدمہ سے بری کرنے کا فیصلہ شدید تنقیدی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت میں بسنے والے مسلمان شدید پریشان نظر آتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کی عبادت گاہیں اورجان و مال ہندوؤں سے محفوظ نہ ہیں۔ مودی سرکار کا چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نا ممکن ہے جسکے واضح مثال بھارتی عدالت کا فیصلہ ہے۔6 دسمبر 1992 کو جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو بھارتی چینلز نے مناظر براہِ راست دکھا ئے اور آج بھی یو ٹیوب پر وڈیوز موجود ہیں۔دوسری جانب پاکستا ن میں کرتار پور راہداری کی تعمیر کی اور سکھوں کے دوسرے انتہائی مقدس مقام گردوارا کرتارپور ان کیلئے کھول دیا۔ اس کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان نے 9 نومبر 2019 کو کیا اور افتتاحی تقریب میں نوجوت سنگھ سدھو نے پاکستان کے وزیر ِاعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا شکریہ ادا کیا۔
کرتار پور گردوارا تحصیل شکر گڑھ میں واقع ہے جو کہ سکھ مذہب کے پیشوا بابا گورونانک کی جائے وفات قرار دی جاتی ہے۔ کرتار پور 1504 عیسوی میں آباد ہوا اور باب گورونانک نے اپنی زند گی کے آخری 20 سال یہاں بسر کیے اور انکی وفات 1539 عیسوی میں ہوئی۔ کرتار پور ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں واقع ہے اور دریائے راوی کی کنارے گردوارا کرتار پور صاحب سکھوں کیلئے اہم عبادت گاہ تصور کی جاتی ہے۔
نوجوت سنگھ سدھو نے 18 اگست 2020 کو وزیرِ اعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی تھی اور ان کی ایک تصویر '' جس میں وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے مل رہے ہیں'' بھارت میں شدید تنقید کی زد میں رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے اس موقع پر کرتارپور راہ داری کھولنے کی درخواست کی تھی۔ وزیرِاعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی خصوصی کاوشوں سے کرتار پور راہ داری پر دن رات کام ہوا اور قلیل عرصہ میں کرتار پور راہ داری کو تعمیر کر لیا گیا۔ بھارتی حکومت سکھوں کی ویزا دینے کے لئے ایک طویل عمل سے گزارنے پربضدتھی۔ مگر پاکستان نے سکھوں کیلئے انتہائی آسانی پیدا کی اور ویزا کی شرط کو ختم کر دیا۔ پاکستان کا اقلیتوں سے سلوک واضح تھا اور اس کا ثبوت انتہا ئی خوبصورت کرتار پور راہ داری کی تعمیر اور اس کا افتتاح 9 نومبر 2019 کو کرنا تھا۔
اقوام متحدہ کا ادارہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کی یقینی بناتا ہے بین الاقوامی قوانین تمام ممالک کو اس بات کے پابند بناتے ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے مگر بھارت میں کشمیریوں کے حقوق ہو ں یا بھارتی مسلمانوں کے حقوق، سکھوں کے حقوق ہوں یا بھارتی عیسائیوں کے حقوق ہندو غضب کرتے نظر آتے ہیں جن کو بھارتی حکومت کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ بھارتی حکمران جما عت بھارتی جنتا پارٹی کو ہندو انتہا پسند جماعت تصور کیا جاتا ہے اور دوسری مرتبہ پی۔جے۔ پی کا حکومت میں آنا بھارتی ہندوؤں کے انتہا پسندی کی سوچ میں اضافہ کی واضح مثال ہے۔
عالمی وباء کرونا کا جب بھارت میں پھیلاؤ شروع ہوا تو انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں پر پرُ تشدد حملے شروع کر دیے اور کرونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دینا شروع کر دیا۔ دہلی فسادات میں ہندوؤں نے مساجد کو جلا دیا اور مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا۔
اعتدال پسندانہ سوچ ہی سے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکتا ہے۔ ایک وقت تھا جب بھارت پاکستان کو مذہبی انتہا پسند ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتا تھا۔ وقت کا ستم تھا کہ چند واقعات میں پاکستانی ملوث پائے گئے تھے مگر ریاست پاکستان نے اعتدال پسندانہ سوچ کو پروان چڑھایا جس کا منہ بولتا ثبوت کرتار پور راہ داری ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے اقلیتوں کے تحفظ کیلئے مؤثر اقدامات کو جاری رکھا جس کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کا تشخص انتہائی مثبت ظاہر ہوا۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے دنیا پر زور دیا کہ تمام مسائل کا حل بات چیت میں ہے اور جنگ و لڑائی کسی مسئلہ کا حل نہ ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان اس بات پر بھی زور دیتے رہے ہیں کہ پاکستان دنیا میں مثبت کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے جبکہ بھارتی جارحیت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا اور اقلیتوں پر تشدد کے واقعات رونما ہونا بھارت میں معمول بن گیا ہے۔بابری مسجد کی شہادت سے کرتار پور راہ داری کا سفر 28 سال پر محیط ہے جو کہ ایک حقیقت کے دو رخ ہیں۔ اگر بات کریں پاکستان میں اقلیتوں اور انکے مذہبی مقامات کے تحفظ کی تو کٹاس راج مندر کا کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 19 نومبر 2018 کو کٹاس راج مندر کے تالاب کے پانی کے غیر قانونی استعمال کا فیصلہ سنایا جس میں ڈی جی خان سیمنٹ کو 10کروڑ جرمانہ کیا گیا اور حکومت کو کٹاس راج مندر کے پانی کو محفوظ بنانے کیلئے مؤثر اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا۔ مزیدبراں حکومت پاکستان نے 2018 میں 139 بھارتی ہندوؤں کو ویزے جاری کئے تا کہ کٹاس راج مندرکی مذہبی تقریبات میں شرکت کر سکیں۔ کٹاس مندر ضلع چکوال میں پنڈ دادنخان کے قریب واقع ہے۔
کٹاس راج مندر کی تاریخ 1500 سال پرانی ہے اور ہندو اس مندر کے تالاب کے پانی کو آب شفاء قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب بابری مسجد کی شہادت کے مقدمہ کا فیصلہ انتہائی مضحکہ خیز ہے جس میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔ اعتدال پسندانہ سوچ اور مذہبی آزادی سے ہی جدید دنیا میں ترقی کا سفر ممکن ہو سکتا ہے اور وہ ملک ہی ترقی کر سکتے ہیں جس میں عدالتیں فیصلہ انصاف پر مبنی کرتی ہیں اور اقلیتوں کے تحفظ کیلئے انتہائی اقدامات کا حکم صادر کرتی ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024