ہمیں ، من حیث القوم ، غلامی ایسی بھا گئی ہے کہ انگریز سے آزادی ملنے کے تہتر برس بعد بھی ہم ذہنی اور فکری غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکے،اور تو اور اس خوئے غلامی کا ہی پرتو ہے کہ ہم آج بھی شخصیات کی غلامی اورشخصیت پرستی پر فخر محسوس کرتے ہیں، بہت سے نام نہاد دانشورپنجاب کو حملہ آوروں کو خوش آمدید کہنے والوں میں شمار کرتے ہیں، ایسے لوگ پنجاب کی حریت اور مزاحمت کی تاریخ سے نا بلد ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انہیں، نابلد رکھا گیا،وجہ یہ ہے کہ پنجاب کا یہ مزاحمتی کردار آج کل کی بات نہیں بلکہ دراوڑعہد سے ہی ، مزاحمت اور حمیت یہاں کی عوام کو گھٹی میں ملتی ہے۔ اعتزاز احسن ’سندھ ساگا‘ میں ’جان ہیرس ‘کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’پنجاب ہمیشہ سے مختلف تھا، یہاں کے قبائل مردانہ شجاعت کے حامل جنگجو تھے ، انگریزوں کو یہاں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا‘، پنجاب کے اس مزاحمتی کردار کو لوگوں سے جان بوجھ کر چھپایا گیا، اور انہیں ایسی تاریخ پڑھائی گئی جس میں پنجاب کے مزاحمتی کردار کو مسخ کر کے خوشامدی کردار کو متعارف کروایا گیا۔ہمارے دانشوروںسمیت پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے بھی اپنا کردار ذمہ داری سے نہیں نبھایا جس کی وجہ سے اصل حقائق جان بوجھ کر عوام سے پوشیدہ رکھے گئے اور انہیں صرف وہ تاریخ پڑھائی گئی جس میں حکمرانوں کے قصیدے پڑھے گئے اور عوام کو مزاحمت سے روکا گیا۔ یہ چال کافی حد تک کامیاب رہی۔ مگر پنجاب میںکچھ ایسے سپوت جنم لیتے رہے جو حریت، مزاحمت اور حمیت کا استعارا بن کر طاغوتی قوتوں کیلیے دردِ سر بنے رہے، ساہیوال کے مردم خیز خطہ میںمزاحمت اور حریت کی تاریخ کے اہم کردار’شیخا، جیسرت، سارنگ خان‘اور رائے احمد خان کھرل پنجاب کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ انگریز نے 1849ء میں ملتان میں ’مول راج‘کو شکست دے کر پنجاب پر قبضہ مستحکم کرتے ہی پنجاب کی تنظیمِ نو کیلئے انتظامی بورڈ تشکیل دیا جس نے پنجاب کو سات ڈویژنز اور ستائیس اضلاع میں تقسیم کر کے اس کا انتظام چیف کمشنر کے سپر کردیا،پنجاب پر قبضے کے چند سال بعد پنجاب کے غیور سپوتوں نے مزاحمت کا راستہ اپنایا، اس مزاحمت کو کچلنے کیلئے انگریز نے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے شروع کیے جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ، انگریز کے تسلط سے آزادی کی لہر تیزی سے بڑھنے لگی،گائے اور سور کی چربی سے بنے کارتوس استعمال کرنے سے انکار اور مختلف فوجی چھاؤنیوں میں سپاہیوں سے اسلحہ واپس لینے جیسے اقدام نے حریت کی آگ کو اور بڑھکا دیا، گوگیرہ کے علاقے جھامرہ کے رائے احمد خان کھرل نے ( 80 برس کی عمر میں) جو انگریز کے ، پنجاب پر غاصبانہ قبضے کے شروع سے مخالف تھے، اس ظلم و استبداد پر مقامی لوگوں کو مزاحمت پر تیار کیا۔انگریز نے لوگوں کو ڈرانے اور رائے کو مزاحمت سے روکنے کیلیے گوگیرہ کے متعدد قبائل کو آبیانہ کی عدم ادائیگی کا بہانہ بنا کر گرفتار کر لیا، انگریز کے اس قدم نے گویا احمد خان کھرل کی حریت کے جذبے کو مہمیز کر دیا۔ انہوں نے انگریز سرکار کو دو ٹوک الفاظ میں تنبیہ کی اور انکی رہائی کا مطالبہ کیا ۔انگریز رائے کی گرفتاری کیلئے بہانے کے متلاشی تھے۔ انہوں نے رائے سے اسکی ہردلعزیز گھوڑی’مورنی‘ طلب کی جس پر رائے نے کہارناں، بھوئیںتے گھوڑیاں، ونڈ کسے نہ دتیاں ہوندیاں بِت دے وچ ساہ سلامی اس انکارکو بہانہ بنا کررائے کی گرفتار ی کیلئے جھامرے پر چھاپہ مارا گیا رائے بچ نکلے،22ستمبرکو رائے کا سامنا انگریز فوج سے ہوا،جس میں دوران ِ نماز رائے کو شہید کر دیا گیا۔جواب میں مجاہدوں نے اسسٹنٹ کمشنر برکلے کو جہنم واصل کرکے بدلا چکایا۔مقامی شعراء نے حریت کی اس کہانی کو ڈھولوں میں محفوظ کیا۔ گذشتہ روز شعبہ پنجابی ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی جانب سے جنگِ آزادی کے عظیم رہنما،رائے احمد خان کھرل شہیدکے یوم شہادت کے حوالے سے ایک پروقار سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔فضل حسین سیمینار ہال میں منعقدہ اس تقریب کی صدارت جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی نے کی، تقریب کے مہمانانِ خصوصی حمید رازر ی(ممبر وفاقی محتسب) محمد خان رانجھا (سپیشل سیکرٹری ٹو گورنر) اور عابد ساقی (سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل) تھے جبکہ پروین ملک (سیکرٹری، پاکستان پنجابی ادبی بورڈ)عمار شاہ کاظمی (معرف پنجابی دانشور)مقررین میں شامل تھے، ڈاکٹر ظہیر وٹو نے نظامت کے فرائض نبھائے ، مقررین نے موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے، احمد خان کھرل شہید کے مجاہدانہ کردارکو سراہا۔ڈاکٹر اصغر زیدی نے شستہ پنجابی میں گفتگو کرتے ہوئے، شعبہ پنجابی کی کاوش کو سراہا اور ایسے موضوعات پر تحقیق کیلئے کتب کی فراہمی کے ساتھ ساتھ رائے کے مجسمہ کی تنصیب میں تعاون کا یقین بھی دلایا!
میں اوہنوں انْکھی نہیں سمجھدا
جہڑا احمد خان کھرل دا دکھ وسارے
خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔
Apr 16, 2024