کہتے ہیں کہ نریندرا مودی کبھی نہیں سدھریں گے، ہمیں یقین ہے کہ وہ کبھی سدھر نہیں سکتا، سدھرنے کے لیے سوچ کا وسیع ہونا، تعصب سے پاک ہونا ضروری ہے اور بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی ان دونوں خوبیوں سے عاری ہیں۔ بلکہ وہ ان دونوں خامیوں کے اعلی درجے پر فائز ہیں، تنگ نظری اور تعصب میں انہیں کمال حاصل ہے اور اس تنگ نظری اور تعصب کا ثبوت گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہے اور اب کشمیر میں جاری کرفیو اور لاک ڈاون نے نریندرا مودی کے متعصب اور تنگ نظر ہونے پر مہر لگا دی ہے۔
کشمیر کی حیثیت کو بدلنے اور پانچ اگست سے دس ستمبر تک مقبوضہ وادی میں ابھی کشمیری اپنے ہی گھروں میں قید ہیں یہ ظلم بھی نریندرا مودی کے کھاتے میں ہے۔ دنیا میں اس اقدام کی مذمت تو کی گئی ہے لیکن نریندرا مودی اور ان کی حکومت نے کسی چیز کا کوئی اثر نہیں لیا۔ کشمیر میں کرفیو کب تک جاری رہے گا اس بارے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ پاکستان دنیا کو بار بار یاد کروا رہا ہے کشمیر میں بھارتی مظالم کی وجہ سے صرف خطے ہی نہیں دنیا کے امن کو بھی خطرات لاحق ہیں لیکن ابھی تک دنیا نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دنیا کے اہم غیر متعصب اور غیر جانبدار افراد نے بھارتی حکومت کے ان اقدامات کو زبردست الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کرفیو اور لاک ڈاون کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان کو سپورٹ کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے بیجنگ میں ہونے والی ملاقات کے دوران کیا۔ چینی صدر نے کہا ہے کہ فریقین کو تنازعہ پرامن طریقے سے گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا ہے کہ دو ماہ سے زائد ہو گئے ہیں کہ بھارت کشمیر کی حیثیت کو بدل چکا ہے اس وقت سے اب تک مقبوضہ وادی میں کرفیو اور لاک ڈاون ہے۔ بھارت کرفیو لاک ڈاون ختم کرے اور تمام بیگناہ افراد کو رہا کرے۔ بالخصوص ان بچوں کو بھی رہا کرے جنہیں بغیر کسی جرم کے گرفتار کیا گیا ہے۔
ایک نو سال کے بچے کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ میناکشی کہتی ہیں کہ کئی غیر ملکی اہم شخصیات نے بھی اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
کشمیر کی سیاسی قیادت کو محصور کر دیا گیا ہے، احتجاج کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بڑی تعداد میں فوجیوں کی تعیناتی نے مسائل کو گھمبیر بنا دیا ہے اتنی سختی ہے کہ طبی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ بند دکانیں اور خالی کلاس روم صورتحال کی سنگینی ظاہر کر رہی ہے۔ بھارت کے اپوزیشن لیڈرز کو کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں ہے، سفارتکاروں کو بھی مقبوضہ وادی نہیں جانے دیا جا رہا، غیر ملکی صحافیوں، سماجی کارکنوں اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو روکنا تشویشناک ہے۔
کشمیر میں کرفیو، لاک ڈاون،بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں اور بھارتی حکومت کے مسلم کش اقدامات کی وجہ سے اب تک معیشت کو دو سو بلین کا نقصان ہو چکا ہے۔
صرف قالین بنانے کی صنعت سے منسلک پچاس ہزار افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔ کشمیر میں مختلف شعبوں سے منسلک ماہر افراد کی بھی قلت کا سامنا ہے ہانچ فروری کے کرفیو کے بعد بہت بڑی تعداد میں لوگ مقبوضہ وادی چھوڑ گئے ہیں۔ اس عرصے میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا خدشہ بھی ہے کیونکہ بھارت نے ابتک رابطے کے تمام ذرائع بند رکھے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس معطل ہے۔ ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ہے۔ زندگی منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔ اشیاء خوردونوش کی شدید قلت ہے آنے والے دنوں میں یہ صورت حال اور سنگین ہو جائے گی۔ بھارت کے اندر سے بھی نریندرا مودی کے اس اقدام پر آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ مخلتف تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل سینئر افراد بھی اپنے وزیراعظم کی توجہ حکومت کے سخت اقدامات کی طرف دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کشمیریوں پر ہونے ولے ظلم کے خلاف بھارت میں بھی رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے۔ کشمیر میں رہنے والے اسی لاکھ افراد اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گذر رہے ہیں۔ ان پر بھارتی ظلم دہائیوں سے جاری ہے لیکن جو کچھ وہ پانچ اگست سے دس اکتوبر تک برادشت کر چکے ہیں یہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ کشمیریوں کو اس مشکل وقت میں پاکستان کی حقیقی حمایت اور عملی تعاون کی ضرورت ہے۔ وہ پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سفارتی محاذ پر اب تک پاکستان نے ہر سطح پر کشمیریوں کے لیے آواز بلند کی ہے۔ نریندرا مودی کے ظالمانہ اقدامات کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے لیکن آر ایس ایس کے رکن اور اس کے اردگرد کے لوگ کبھی باتوں کی زبان نہیں سمجھیں گے۔ بھارت کی حکومت اس شخص کے پاس ہے جو گفتگو سے نہیں سدھر سکتا، جو بات چیت سے بدل نہیں سکتا، جو اخلاقی قدروں کو نہیں جانتا جس کے نزدیک انسانی حقوق اور بالخصوص مسلمانوں کے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ کوئی اور زبان ہی سمجھتا ہے۔ ان حالات میں کشمیریوں کی تمام امیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں اللہ کرے کہ پاکستانی کشمیری بھائیوں کی توقعات پر پورا اتریں!!!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024